10 جولائی ، 2020
نجکاری کے 15 سال بعد کے الیکٹرک اپنے نظام میں صرف 1200 میگاواٹ بجلی یعنی سالانہ اوسطاً صرف 80 میگاواٹ اضافہ کرسکی جب کہ سالانہ طلب تقریباً 160 میگاواٹ یا 5 فیصد تک بڑھتی رہی۔
2005 میں جب کے الیکٹرک نجکاری عروج پر تھی تو سبسڈی سے چھٹکارے، زائد بجلی پیداوار اور کئی سنہرے خواب دکھائے گئے لیکن زائد بل، ہیٹ ویو میں بجلی بندش، بڑے بڑے بریک ڈاؤن سمیت بارش میں ہلاکتیں شہریوں کا مقدر بنی رہیں۔
ادارے کا منافعے میں بہتری کے لیے فرنس آئل کے بجائے گیس سے بجلی بنانے پر زور رہا لیکن پیداوار میں اضافے پر دھیان نہ رہا اور بدقسمت کراچی میں 2005 سے اب تک بمشکل 1200 میگاواٹ بجلی کے پیداواری یونٹ لگے۔
شہر کی کل طلب 3200 میگاواٹ کے حساب سے کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد سالانہ 80 میگاواٹ اضافہ محض 2.5 فیصد بنتا ہے جب کہ شہر کی بجلی طلب 5 فیصد سے بڑھتی رہی ہے۔
شہر میں طلب و رسد کا فرق بڑھتا جارہا ہے، کوئلے سے بجلی کے منصوبے بھی محض اعلانات تک محدود ہیں، ناکامی کو بھانپتے ہوئے وفاقی حکومت نے 1400 میگاواٹ بجلی دینے پر رضامندی ظاہر کی ہے لیکن سنجیدہ سوال اٹھ رہے ہیں کہ کیا کے ای نظام اتنی بجلی سہارنے کے لیے تیار ہے؟
وہ سسٹم جو بار بار بریک ڈاؤن کا شکار ہے اضافی بجلی کیسے ترسیل کرے گا؟ بعض ماہرین کے مطابق 2005 سے سالانہ طلب میں 5 فیصد اضافے کے حساب سے کے الیکٹرک کو 1800 سے 2200 میگاواٹ سسٹم شامل کرنا چاہیے تھی۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ نجکاری کے وقت کیے گئے وعدوں کے تحت اضافی بجلی کی پیداوار کے بجائے وفاق سے 1400 میگاواٹ یا مزید کا آرڈر کے ای کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔