Time 13 جولائی ، 2020
کھیل

کرکٹ قومی کھیل ہاکی پر حاوی کیسے ہوا؟

پاکستان قومی کھیل ہاکی ہے اور اس کھیل میں پاکستان کی کامیابیوں کی تاریخ بھی سنہری ہے۔ پاکستان نے چار مرتبہ ہاکی کا عالمی کپ جیتا۔ اس کے علاوہ چیمپئنز ٹرافی، ایشیا کپ، سلطان اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ سمیت متعدد عالمی ایونٹس میں تاریخ رقم کی۔

پھر یہ کھیل ایسا زوال کا شکار ہوا کہ چار مرتبہ عالمی کپ، 8 مرتبہ ایشین گیمز، 3 مرتبہ اولپمکس اور 3 مرتبہ ہی چیمپئنز ٹرافی کا تاج سر پر سجانے والی پاکستانی ہاکی ٹیم 2014 کے عالمی کپ کے لیے کوالیفائی بھی نہیں کر سکی۔

لیکن ایسا نہیں ہے کہ پاکستان نے صرف ہاکی میں ہی نام پیدا کیا ہو۔  جہانگیر خان اور جان شیر خان جیسے پاکستان لیجنڈز تقریباً ایک ایک دہائی تک اسکواش کورٹس پر راج کرتے رہے جب کہ اسنوکر، باکسنگ، کبڈی اور ٹینس جیسے کھیلوں کے بھی کئی اسٹارز نے یہاں جنم لیا۔

مگر برصغیر میں انگریزوں کے متعارف کیے گئے کھیل کرکٹ جیسی مقبولیت، میں پیسے کی چمک دھمک ہاکی سمیت کسی اور  کھیل کو کبھی نہ مل سکی۔ 

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے میڈیا ڈائریکٹر سمیع الحسن برنی کا کہنا ہے کہ "پی سی بی حکومت کے فنڈز سے نہیں چلتا بلکہ پی سی بی اپنے فنڈز خود پیدا کرتا ہے۔" 

امیچور گیم سے کرکٹ کو ایلیٹ اسپورٹس بنانے کا سفر طویل بھی ہے اور کھلاڑیوں کے جوش و جذبے کا عکاس بھی ہے ۔ کئی دہائیاں قبل اپنے شوق کی خاطر کھلاڑی اپنی نوکری سے چھُٹی کرکے کرکٹ کھیلتے تھے اور اب وقت یہ کہ کھلاڑی سینٹرل کنٹریکٹ کا حصہ بن کر پی سی بی میں ملازمت کر رہے ہیں۔

عبدالحفیظ کاردار پاکستان کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان تھے۔

 حفیظ کاردار سے لے کر مشتاق محمد تک سب کھلاڑی پی سی بی کو کامیاب بنانے والوں میں شامل ہیں۔ پی سی بی اس انڈسٹری کی مانند چل رہا ہے جس میں کمرشل پارٹنر بے حد ضروری ہے جن کے بنا ترقی کا سفر ممکن نہیں ہے۔ کمرشل پارٹنرز کا اعتماد بھی اس وقت بڑھتا ہے جب ان کو یقین ہو کہ اس کھیل میں سرمایہ کاری انہیں فائدہ پہنچائے گی۔ کرکٹ میں اسپانسرز کو یہ فائدہ بھی ہوا کہ سات آٹھ گھنٹے تک میچ چلنے کے دوران ہر اوور کے اختتام پر ان بھی ان کی مصنوعات کی بہتر تشہیر ہوتی تھی۔

پی سی بی نے جیسے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کے میلے کو سجایا جس سے نہ صرف روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوئے بلکہ پاکستان کا مثبت چہرا دنیا کے سامنے اجاگر ہوا۔ 

سمیع الحسن برنی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں تنوع ہے ہر علاقے، ہر ریجن کا بہترین کھلاڑی ٹیم کا حصہ بنا، اس کی وجہ یہ ہے کرکٹ پاکستان کے بڑے علاقوں سے لے کر چھوٹے چھوٹے علاقوں میں خوب شوق سے کھیلی جاتی ہے۔

پاکستان نے اپنے قومی کھیل ہاکی کو قیام پاکستان سے 1994 تک ترجیح بنیادوں پر کھیلا اور پاکستان کے پاس قومی کھیل ہاکی میں بے شمار کامیابیاں ہیں لیکن اب پاکستانی ٹیم کی ہاکی کے کھیل میں کارکردگی اچھی نہ رہی ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آدھی سے زیادہ دنیا اور گوروں کو ہاکی سکھانے والا ملک پاکستان آج خود گوروں سے ہاکی سیکھنے پر مجبور ہے۔

1982 میں بھارت میں ورلڈ کپ جیتنے کے بعد وطن پہنچنے والی پاکستانی ٹیم 

'ہاکی اب تک بدقسمتی سے امیچور گیم ہے'

اس حوالے سے سابق کپتان ، کوچ اور ٹیم سلیکٹر اصلاح الدین کا کہنا ہے کہ ہاکی اب تک بدقسمتی سے امیچور گیم ہے بلکہ دنیا کے تمام ہی گیم پروفیشنل گیم میں شمار ہوتے ہیں لیکن ہاکی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں۔ 

ان کا ماننا ہے کہ ہاکی کے زوال کی اصل وجہ میرٹ کو نظر انداز کرنا ہے، ہاکی کے حالات اب اتنے بگڑ گئے ہیں کہ اب اولمپک میں کوالیفائی کرنے کے بارے میں بھی ہم فکرمند ہوتے ہیں۔ 

سابق کپتان اصلاح الدین 1978 میں ورلڈکپ ٹرافی کے ساتھ

اولمپیئن اصلاح الدین کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی پر امید ہیں اگر میرٹ کو نظر انداز کیے بنا کھلاڑی اپنی فیزیکل فٹنس پر توجہ دیں تو اگلے چار سال میں ہم وکٹری اسٹیڈ پر پہنچ سکتے ہیں لیکن اس کے لیے سخت محنت کی ضرورت ہے ۔

"ہاکی کے کھلاڑیوں کے لیے ڈیپارٹمنٹ ہاکی کی ٹیمز بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کھلاڑیوں کو روزگار کی فکر نہ ہو، کرکٹ کے ایک کھلاڑی کو ٹیم میں ترجیح نہیں دی جاتی تو بھی اس کے پاس کاؤنٹی کھیلنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ ہاکی میں لیگز کھیلی تو جاتیں ہیں لیکن پاکستانی کھلاڑیوں کو پیسے بہت زیادہ نہیں ملتے ۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان ہاکی کی طرف کم دیکھ رہے ہیں اور ان کی توجہ کرکٹ پر مرکوز ہے۔"

سابق کپتان اور اولمپیئن شہباز سینئر کا کہنا ہے کہ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے ، تاہم ٹی وی پر کرکٹ کی اتنی کوریج ہوئی کہ اب ہاکی یہاں مقبول نہیں رہا اور نوجوانوں کی تمام تر توجہ کرکٹ نے سمیٹ لی۔

شہباز سینئر کہتے ہیں کہ نوجوانوں میں اس کی مقبولیت کم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہاکی کا سامان دیگر کھیلوں کے مقابلےمیں بہت مہنگا ہے جب کہ کرکٹ کے لیے بائیس کھلاڑی دو بلوں اور ایک بال سے میچ کھیل لیتے ہیں۔ 

شہباز سینئر 1994 میں ورلڈکپ جیتنے کے بعد ٹرافی کے ساتھ موجود ہیں۔

شہباز سینئر کے مطابق "ایک ہاکی کی قیمت ہی پانچ ہزار سے شروع ہوتی ہے جب کہ گذشتہ دو برسوں سے ہاکی کو کوئی فنڈ نہیں دیا گیا۔ فنڈز کے بغیر انٹرنیشنل ٹورنامنٹس میں پاکستان کیسے نمائندگی کر سکتا ہے ؟"

قومی ٹیم میں کراچی کے کھلاڑی شامل نہ ہونے کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے کھلاڑی اتنا ورک آوٹ نہیں کرتے کہ وہ قومی ٹیم میں جگہ بنا سکیں۔

حکومت سندھ اس سلسلے میں سالانہ دس کروڑ کی گرانٹ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو دے رہی ہے تاہم اس کے باوجود بھی بدقسمتی سے پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم میں اب تک ایک بھی کھلاڑی سندھ سے شامل نہیں ہے۔

اس وقت سندھ بھر میں 15 آسٹروٹرف ہیں جن میں سے کراچی میں صرف پانچ فنکشنل ہیں جب کہ دو اپنی پوری کر چکی ہیں اور وہ قابل استعمال نہیں۔ حیدرآباد میں دو ، خیرپور ، سکھر، نواب شاہ ، میرپور خاص ، لاڑکانہ اور دادو میں ایک آسٹروٹرف شامل ہیں ۔

صوبائی سیکریٹری اسپورٹس اینڈ یوتھ افیئرز سید امتیاز علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ میں 33 کھیلوں کی ترقی اور فروغ دینے کے لیے کام ہو رہا ہے، تاہم قومی ٹیم میں سندھ کے کسی کھلاڑی کی نمائندگی کے سوال پر انہوں نے جواب نہیں دیا۔ 

ہاکی کے لیے فنڈز دینے کے معاملے میں ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ہی کے ایچ اے کمپلکس میں فلڈ لائٹز کی تنصیب کی گئی اس کے علاووہ آسٹروٹرف بھی بجھائی گئی۔ 

انہوں نے کہا کہ گراؤنڈز کو اپ گریڈز کرنا سندھ اسپورٹس بورڈ کی ذمہ داری ہے جو وہ باخوبی ادا کر رہی ہے مگر یہ کام ایسوسی ایشن کا ہے کہ اچھے ٹورنامنٹ کرائیں اور اچھے گیمز کو منعقد کرائیں۔

کراچی ہاکی ایسوسی ایشن کے سیکٹریری حیدر حسین کہتے ہیں کہ وہ امید کرتے ہیں کہ جلد ہی قومی ٹیم میں صوبہ سندھ سے بھی اچھے اور قابل کھلاڑی ٹیم کا حصہ بنیں گے۔ 

مزید خبریں :