14 جولائی ، 2020
فرض کریں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کا صدارتی الیکشن ہار گیا تو اُس سے ہمارے خطے، چین، بھارت، پاکستان اور افغانستان پر اہم ترین اثرات مرتب ہوں گے اور اگر صدر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہو گیا تو اس خطے کے حالات میں کوئی نمایاں سیاسی، جغرافیائی یا جوہری تبدیلی آنے کا امکان نہیں رہےگا۔
صدر ٹرمپ ہار گیا تو ڈیموکریٹک پارٹی کے جوبائیڈن نئے صدرِ امریکہ بنیں گے۔ ان کی جماعت اور وہ اس خطے کے بارے میں ٹرمپ کی پالیسی پر نظرثانی کریں گے۔ امریکہ شاید پھر مودی کی انتہا پسندی کو برداشت نہ کرے اور نہ ہی طالبان کو صلح پر آمادہ اور تیار کرنے کے لیے پاکستان کے اہم ترین کردار کو تسلیم کرے۔
اسی طرح دونوں ملکوں میں جمہوری آزادیوں پر پابندیوں، میڈیا کے خلاف اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر امریکہ کی خاموشی کی پالیسی میں بھی نمایاں تبدیلی آ جائے گی۔ جوبائیڈن افغانستان کے اندر مذاکراتی عمل کی تو حمایت کریں گے لیکن پاکستان کے اندرونی معاملات پر امریکہ کی جو مکمل خاموشی ہے وہ شاید برقرار نہ رہ سکے۔ ویسے تو ڈیموکریٹک پارٹی امریکہ کی اندرونی معیشت کی بہتری پر زور دیتی ہے، جمہوری بھارت اور جمہوری پاکستان کی حامی رہی ہے۔
صدر کلنٹن نے مارشل لاکے دوران ابتدائی طور پر صدر مشرف سے راہ و رسم بڑھانے سے گریز ہی کیا تھا بعد ازاں ری پبلکن صدر جارج بش جونیئر نے ان سے گرم جوشی بڑھائی، اب بھی امریکہ میں تبدیلی آئی تو اس سارے خطے پر سیاسی اثرات پڑیں گے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق فی الحال صدر ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے امکانات زیادہ ہیں۔ نومبر تک اس حوالے سے سروے میں نشیب و فراز آتے رہیں گے۔ صدر ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے سے پہلے اگر انہیں طالبان کے ساتھ کامیاب مذاکرات کی ٹرافی مل جاتی ہے تو ان کا ری الیکشن آسان ہو جائے گا۔
امریکہ کو پہلی بار یہ یقین ہے کہ پاکستان نیک نیتی سے افغانستان میں امن کا خواہاں ہے اور اپنی پوری کوشش کر رہا ہے کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جائیں۔
اس حوالے سے پاکستان نے افغان امور کے لیے محمد صادق کو خصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے۔ محمد صادق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ افغانستان میں بطور سفیرِ پاکستان انہوں نے نہ صرف افغان پختون رہنمائوں سے پاکستان کے تعلق کو مضبوط بنایا بلکہ شمالی اتحاد کے رہنمائوں کے ساتھ بھی غیرمعمولی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے اپنی تعیناتی کے فوراً بعد احمد شاہ مسعود کی قبر پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی جس کا شمالی اتحاد کی قیادت پر گہرا اثر پڑا۔ محمد صادق نے کابل قیام کے دوران رقبے کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے سفارتخانے کو آباد کر دیا حالانکہ اس سے پہلے پاکستانی سفارتخانہ کرائے کی عمارت میں کام کر رہا تھا اور سفارتخانے کی جگہ ویران پڑی تھی۔
انہوں نے سفارتخانے کے وسیع رقبے میں پھلوں اور پھولوں کے باغات لگوائے۔ سفارتخانے کو اس قدر قابلِ رشک بنا دیا کہ صدر پاکستان اپنے دورئہ افغانستان کے دوران سفارتخانے میں ٹھہرائے گئے۔
محمد صادق کے نمائندہ برائے افغان امور بننے کے بعد اُن کی کوششوں سے کراچی پورٹ پر کھڑے ہزاروں افغان کنٹینر ٹرکوں کو کابل کا پروانہ اجازت مل گیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان راستے کھلنا شروع ہو گئے۔ افغان طلباء کے لئے پاکستان میں وظائف کا بند سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔ زلمے خلیل زادمطمئن ہیں کہ اب محمد صادق کی وجہ سے معاملات زیادہ بہتر طور پر چلیں گے۔
اس بار زلمے خلیل زاد خاص طور پر پاکستان کے دفتر خارجہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور محمد صادق سے ملنے بھی گئے اور ان کی طالبان مذاکرات کے حوالے سے امداد کا شکریہ بھی ادا کیا۔
گزشتہ دنوں دورئہ اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن خلیل سے اِس کالم نگار کی ملاقات ہوئی تو طالبان اور امریکہ میں مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے حوالے سے پس منظر کا پتا چلا، طالبان کو راضی کرنے کے لئے ان کے اساتذہ کی مدد لی گئی، مولانا تقی عثمانی نے مذاکرات کو شرعی اعتبار سے درست قرار دیا تب جا کر مذاکرات شروع ہوئے پھر مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ مذاکرات قطر میں ہوں یا پاکستان میں۔
بالآخر یہ معاملہ بھی قطر کے حق میں طے ہوا اور یوں مذاکرات صحیح رُخ پر چل پڑے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پاکستان کے علماء حکومت اور کار پردازان سبھی چاہتے ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں، اب واقعی ایسا سوچا جا رہا ہے کہ افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوںگے۔
زمانہ بدل گیا، انداز بدل گئے وگرنہ پہلے پاکستان میں ہر تبدیلی کے پیچھے امریکہ کا نام لیا جاتا تھا۔ حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں سی آئی اے کا نام لیا جاتا ہے۔ وزیروں اور صحافیوں پر الزام لگتا تھا کہ فلاں سی آئی اے کا ایجنٹ ہے۔ آج کل تو تبدیلی آتی ہے تو اسکے سرے ملک کے اندر ہی ڈھونڈے جاتے ہیں۔ صدر ٹرمپ جب سے برسراقتدار آئے ہیں ان کا فوکس افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی ہے۔
اس حوالے سے پاکستان کے ساتھ ان کے رابطے ہیں۔ ان روابط کی وجہ سے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی معاملات میں نسبتاً فری ہینڈ حاصل ہے۔ اندرونی تبدیلیوں میں تو ذرہ برابر بھی بیرونی ہاتھ نظر نہیں آتا البتہ آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور ایشین بینکوں سے قرض لینے یا قرض کی واپسی کے لئے امریکہ کی اشیر باد لینا پڑتی ہے۔
فرض کریں کہ طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ طے پا جاتا ہے۔ نومبر میں صدر ٹرمپ دوبارہ جیت جاتے ہیں تو پھر پاکستان کے لیے امریکی امداد بحال ہو سکتی ہے خصوصی مالی اور مراعاتی پیکیج بھی آ سکتا ہے۔ ٹرمپ اپنی دوستی اور طاقت کے زور پر کشمیر کے معاملے میں بھارت سے کچھ رعایات دلا سکتے ہیں، پاکستان کو جدید ترین امریکی اسلحہ اور آلات مل سکتے ہیں۔
ایف سولہ کے بعد سے ہمیں جدید ترین ٹیکنالوجی اور جہازوں کی ضرورت ہے۔ پاکستانی طلبہ کے لیے اعلیٰ تعلیم پی ایچ ڈیز اور دوسری سائنسی ڈگریوں اور ریسرچ کے راستے کھل سکتے ہیں جولائی تا نومبر کا عرصہ بین الاقوامی حالات میں تبدیلی کے حوالے سے پاکستان کے لئے اہم ہے۔
اگر ڈیموکریٹک پارٹی جیتی تو پاکستان کی اپوزیشن خوش ہو گی کہ دنیا ان کے لیے سازگار ہو گئی اور اگر ٹرمپ جیت گئے تو پھر اپوزیشن کے لیے کوئی گڈ نیوز نہیں ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔