کھیل
Time 15 جولائی ، 2020

خطروں کی کھلاڑی پاکستانی سائیکلسٹ ثمر خان کی کہانی

ثمر خان نے کہا کہ پشتوں گھرانے سے تعلق اور پھر ایسا کھیل جس میں کوئی اور نہ ہو اور نہ ہی مستقبل کا کچھ پتہ ہو، شروع کرنا مشکل تھا— فوٹو: جیو نیوز

بلندیوں کو چھوتے دیو قامت پہاڑ، برفیلی چوٹیاں اور اس کے درمیان دل دہلا دینے والا خطرناک پتھریلا راستہ  اور اس راستے پر سائیکل چلانا یقینی طور پر کوئی آسان کام نہیں، لیکن پاکستانی خاتون سائیکلسٹ ثمر خان کیلئے یہ کچھ مشکل نہیں۔

پاکستان کا بیافو گلیشئر ہو یا افریقا کی ماؤنٹ کیلی منجرو، ثمر نے بلند ترین چوٹیوں کو سائیکل پر سر کرکے پاکستان کا پرچم بلند کیا اور اب وہ ایڈونچر اسپورٹس کو ملک میں عام کرنا چاہتی ہیں۔

29 سالہ ثمر خان کئی کھیلوں کی تربیت حاصل کرچکی ہیں لیکن ہر کھیل ، عام کھیل سے مختلف۔ چاہے مکسڈ مارشل آرٹس ہو، ماؤنٹین بائیکنگ یا پھر اسنو بورڈنگ، ہر خطرناک کھیل میں ثمر کو مہارت حاصل ہے۔

ثمر کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے دیر سے ہے، 2016 میں بیافو گلیشئر تک سائیکلنگ کرنا اور پھر افریقا کی بلند چوٹی ماؤنٹ کیلی منجرو کو بھی دو پہیوں پر سر کرنا ثمر کے یادگار کارناموں میں سے ایک ہے  لیکن یہ سب کچھ حاصل کرنا ان کیلئے آسان نہیں تھا۔

بلندیوں کو چھوتے دیو قامت پہاڑ، برفیلی چوٹیاں اور اس کے درمیان دل دہلا دینے والا خطرناک پتھریلا راستہ اور اس راستے پر سائیکل چلانا یقینی طور پر کوئی آسان کام نہیں— فوٹو: جیو نیوز

جیو نیوز کو انٹرویو میں ثمر خان نے کہا کہ پشتوں گھرانے سے تعلق اور پھر ایسا کھیل جس میں کوئی اور نہ ہو اور نہ ہی مستقبل کا کچھ پتہ ہو، شروع کرنا مشکل تھا۔ گھر والوں کو منانا بھی ایک چیلنج تھا اور پھر بعد میں لوگوں کو ایڈونچر اسپورٹس کی اہمیت بتانا، اس کیلئے درکار فنڈنگ پر راضی کرنا بھی مشکل مرحلہ تھا لیکن انہوں نے محنت سے سب کچھ ممکن بنایا۔

ثمر کہتی ہیں کہ انہوں نے ماؤنٹین بائیک اور ایڈونچر اسپورٹس کا انتخاب اس لیے کیا کیوں کہ اس کھیل میں ہمیشہ غیر ملکی ایتھلیٹس کے نام لیے جاتے تھے، کوئی پاکستانی ایتھلیٹ کا نام نہیں تھا حالانکہ پاکستان کی جغرافیائی کنڈیشنز میں وہ سب کچھ موجود ہے جو کسی کو بھی ماؤنٹین بائیکنگ اور ایڈونچر اسپورٹس میں بلندیوں پر لے جانے کیلئے ضروری ہے۔

ثمر کہتی ہیں کہ انہوں نے ماؤنٹین بائیک اور ایڈونچر اسپورٹس کا انتخاب اس لیے کیا کیوں کہ اس کھیل میں ہمیشہ غیر ملکی ایتھلیٹس کے نام لیے جاتے تھے— فوٹو: جیو نیوز

ان کا کہنا تھا کہ وہ نہ صرف یہ ثابت کرنا چاہتی تھیں کہ پاکستانی خواتین بھی سب کچھ کرسکتی ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ملک کی سیاحت کا فروغ بھی ان کا ایک ہدف تھا۔

ثمر کہتی ہیں کہ جب انہوں نے بیافو گلیشیرپر سائیکلنگ کا عزم کیا تو لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا اور کہا کہ یہ ممکن نہیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور تین ہفتے کی مہم جوئی کے بعد جس میں ٹریکنگ اور سائیکلنگ دونوں مراحل شامل تھے ، انہوں نے وہ کردیا جو پہلے کسی پاکستانی خاتون نے نہیں کیا تھا۔

اس کے بعد افریقا میں ماؤنٹ کیلی منجرو سر کیا جس میں گھنے جنگلات سے ہوتے ہوئے صحرا  اور پھر برفانی چوٹی سب کچھ طے کیا۔ ان دونوں چوٹیوں کو سرکرنا ثمر کی زندگی تبدیل کرگیا اور انہوں نے زندگی میں خطرات کا سامنا کرنا سیکھ لیا۔

ثمر کہتی ہیں کہ ایڈونچر اسپورٹس سے نہ صرف ایک اچھا ایتھلیٹ بنا جاسکتا ہے بلکہ اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے، ثمر کی اب خواہش ہے کہ وہ پاکستان میں ایڈونچر اسپورٹس کو باقاعدہ قومی سطح پر متعارف کراِئیں اور اس کی باضابطہ فیڈریشن ہو جو ماؤنٹین بائیکنگ اور اسنو بورڈنگ جیسے کھیلوں میں ایتھلیٹس کو آگے بڑھائیں۔

خود ثمر کی بھی خواہش ہے کہ وہ ریکارڈ اٹمپٹس کے علاوہ انٹرنیشنل مقابلوں میں بھی پاکستان کی نمائندگی کریں لیکن اس کیلئے فنڈنگ اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔

ان کو اندازہ ہے کہ اس کھیل کو عام کرنے میں وقت لگے گا لیکن وہ پھر بھی پر امید ہیں کہ پاکستان میں ایک دن اس کھیل کو بھی اپنا مقام ملےگا۔

مزید خبریں :