Time 16 جولائی ، 2020
بلاگ

نیا متبادل

پارٹی کو شخصیات کا تابع نہ بنایا جائے بلکہ شخصیات کو پارٹی کا تابع بنایا جائے—فوٹو فائل

بڑے لوگوں کی بعض چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے نتائج بڑے بھیانک اور تباہ کن نکلتے ہیں۔ اکثر بڑے لوگ اپنے عروج پر پہنچ کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کا کوئی متبادل نہیں۔ جب کسی کو یہ غلط فہمی ہو جائے کہ اس کی قوم کے پاس اس کے سوا کوئی دوسری چوائس نہیں رہی، تو پھر اس خبطِ عظمت میں زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔

سیاسی مخالفین کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کی جانے لگتی ہے اور جب کوئی خیر خواہ اچھا مشورہ دے تو نجی محفلوں میں اس کے متعلق بھی ایسی گفتگو شروع ہو جاتی ہے جو کئی دفعہ عروج کے زوال کا باعث بن جاتی ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ میں ایسے کئی بڑے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے خبطِ عظمت کا شکار ہو کر یہ سمجھا کہ اب ان کے سوا کوئی دوسری چوائس نہیں اور پھر انہوں نے ایسی غلطیاں کیں جن کے نتائج بہت تباہ کن تھے۔

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو قائداعظم کی وفات کے بعد سیاست دانوں کے احتساب کا شوق چرایا اور انہوں نے 14اگست 1949 کو عوامی نمائندوں کی نااہلی کا ایک قانون نافذ کیا جو پروڈا کہلایا۔ اس قانون کے ذریعہ انہوں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ افتخار ممدوٹ، سندھ کے وزیراعلیٰ پیر الٰہی بخش اور تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے حسین شہید سہروردی کے خلاف مختلف مقدمات قائم کر دیے۔

14اگست 1949کے دن لاہور سے قائداعظم کے سابق پرائیویٹ سیکرٹری کے ایچ خورشید نے مرزا عزیز بیگ کےساتھ مل کر انگریزی ہفت روزہ گارڈین شروع کیا۔ انہی دنوں وزیراعظم لیاقت علی خان نے حسین شہید سہروردی کو ’’پاگل کتا‘‘ کہہ ڈالا تو گارڈین نے وزیراعظم صاحب پر سخت تنقید کی۔ مرکزی حکومت کے وزیر اطلاعات خواجہ شہاب الدین نے اس تنقید پر گارڈین کے اشتہارات بند کر دیے۔ کے ایچ خورشید کو دھمکیاں بھی دی گئیں حالانکہ وہ کچھ عرصہ قبل ہی جموں جیل سے رہا ہو کر آئے تھے۔

انہوں نے بہت جلد صحافت میں اپنا مقام بنا لیا تھا۔ 1950 میں فیض احمد فیض آل پاکستان نیوز پیپرز کانفرنس کے صدر اور کے ایچ خورشید سیکرٹری جنرل بنے لیکن کچھ ہی عرصے میں حکومت کی انتقامی کارروائیوں کے باعث گارڈین بند ہوگیا۔ وہ کے ایچ خورشید جنہیں قائداعظم نے سرینگر سے تلاش کرکے اپنا پرائیویٹ سیکرٹری بنایا اور قیامِ پاکستان کے بعد کشمیر کی آزادی کیلئے خصوصی مشن پر سرینگر بھیجا اس کے ایچ خورشید کا اخبار لیاقت علی خان کی حکومت نے بند کرا دیا۔

اس کے بعد محترمہ فاطمہ جناح نے کے ایچ خورشید کو قانون کی تعلیم کیلئے برطانیہ بھیج دیا اور دوسری طرف حسین شہید سہروردی نے مولانا بھاشانی کے ساتھ مل کر آل پاکستان عوامی مسلم لیگ بنالی۔ افتخار ممدوٹ نے جناح مسلم لیگ بنالی اور میاں افتخار الدین نے آزاد پاکستان پارٹی بنالی۔ ایوب کھوڑو نے سندھ مسلم لیگ بنالی۔ قائداعظم کی مسلم لیگ کے کئی ٹکڑے ہو گئے۔ پھر سہروردی اور افتخار ممدوٹ نے اتحاد کرلیا۔ عوامی مسلم لیگ اور جناح مسلم لیگ کو ملا کر جناح عوامی مسلم لیگ بنائی گئی۔ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد حکمران مسلم لیگ بھی کمزور ہو گئی۔

1953میں سہروردی نے جناح عوامی مسلم لیگ میں سے لفظ مسلم ہٹا کر اسے جناح عوامی لیگ بنا دیا۔ سہروردی کا مقابلہ کرنے کیلئے میجر جنرل اسکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی بنوائی۔ 1956میں سہروردی نے جناح عوامی لیگ کے نام میں سے جناح نکال دیا۔ 1956میں انہیں وزیراعظم بنایا گیا لیکن کچھ ہی عرصے بعد محلاتی سازشوں کے باعث ان کی حکومت ختم ہو گئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسکندر مرزا یہ سمجھتے تھے کہ وہ پاکستان کیلئے ناگزیر ہیں۔ وہ پاکستان کے چوتھے گورنر جنرل اور پہلے صدر تھے۔

انہوں نے آرمی چیف جنرل ایوب خان کے ساتھ مل کر پاکستان کے ساتویں وزیراعظم ملک فیروز خان نون کی حکومت ختم کردی۔ کچھ عرصے کے بعد ایوب خان نے اسکندر مرزا کا بھی دھڑن تختہ کر دیا اور مارشل لا لگا کر سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی۔ اگر لیاقت علی خان مسلم لیگ کو متحد رکھتے تو سیاسی ادارے کمزور نہ ہوتے اور نوبت کبھی مارشل لا تک نہ پہنچتی۔

پھر ایوب خان بھی خود کو پاکستان کیلئے ناگزیر سمجھنے لگے۔ انہوں نے سیاسی جماعتوں سے پابندی ہٹا دی اور مسلم لیگ پر قبضہ کرلیا۔ ان کی جماعت کنونشن مسلم لیگ کہلائی جس میں ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔

جنہوں نے مسلم لیگ پر ایوب خان کا قبضہ تسلیم نہ کیا ان میں ممتاز دولتانہ، سردار شوکت حیات، چوہدری محمد حسین چٹھہ، خواجہ محمد صفدر اور چوہدری ظہور الٰہی کے علاوہ خان قیوم شامل تھے ان باغیوں کی جماعت کا نام کونسل مسلم لیگ تھا اور انہی بزرگوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے خلاف صدارتی الیکشن لڑنے پر راضی کیا۔

اس الیکشن میں ایوب خان کے حامیوں نے قائداعظم کی بہن کے بارے میں وہی الفاظ استعمال کئے جو لیاقت علی خان نے سہروردی کے بارے میں استعمال کئے۔ ایوب خان یہ الیکشن جیت گیا، پاکستان ہار گیا۔

چند سال کے بعد تاشقند معاہدے کے خلاف عوامی تحریک چلی تو بچے بچے کی زبان پر ایوب خان کے بارے میں وہ الفاظ تھے جو فاطمہ جناح اور ان سے قبل سہروردی کے بارے میں استعمال کئے گئے۔ جس جس نے خود کو ناگزیر سمجھا اسے کسی نہ کسی جانور سے تشبیہ دی گئی ۔پھر جانور انسانوں پر حاوی ہوئے اور پاکستان ٹوٹ گیا۔

1971کے بعد بچا کھچا پاکستان دراصل نیا پاکستان تھا لیکن اس نئے پاکستان میں کسی نے تاریخ سے سبق نہ سیکھا۔ ایک بڑی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔ پیر پگاڑا نے کونسل اور کنونشن کو اکٹھا کرکے فنکشنل مسلم لیگ بنائی لیکن خان قیوم اور ملک محمد قاسم نے اپنی مسلم لیگیں ختم نہ کیں۔

جنرل ضیاء کے مارشل لاکی چھتری میں ایک نئی مسلم لیگ بنائی گئی لیکن جب ضیاء نے محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی تو مسلم لیگ میں جونیجو گروپ اور نواز شریف گروپ بن گئے۔ جونیجو گروپ میں سے مسلم لیگ جناح نکلی اور مسلم لیگ (ن) میں سے پرویز مشرف نے مسلم لیگ (ق) برآمد کی۔ آج کل شیخ رشید احمد نے عوامی مسلم لیگ اور اعجاز الحق نے مسلم لیگ ضیاء بنا رکھی ہے جبکہ مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ کو اکثر لوگ سیاسی جماعت ہی نہیں سمجھتے۔

اس وقت پاکستان میں تین بڑی جماعتیں ہیں۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی، تحریک انصاف میں کچھ لوگ اپنے آپ کو پاکستان کیلئے ناگزیر سمجھنے لگے ہیں۔ دو سال کی مایوس کن کارکردگی کے باوجود اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کو ٹف ٹائم دینے میں ناکام ہیں۔

اس صورتحال میں کچھ پرانے مسلم لیگیوں نے اس تجویز پر غور شروع کر دیا ہے کہ کیوں نہ مسلم لیگ(ن)، مسلم لیگ(ق) اور مسلم لیگ فنکشنل کے علاوہ دیگر چھوٹے گروپوں کو متحد کرکے ایک نئی مسلم لیگ بنائی جائے۔ پارٹی کو شخصیات کا تابع نہ بنایا جائے بلکہ شخصیات کو پارٹی کا تابع بنایا جائے تو کچھ بڑے لوگوں کی یہ غلط فہمی بڑی جلدی دور ہو جائے گی جو سمجھنے لگے ہیں کہ میرا کوئی متبادل نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔