بلاگ
Time 16 جولائی ، 2020

بابا وژن!

حکومت یہیں مار کھا رہی، وہ بیک وقت سب کو مارنے کے چکر میں، سب اکٹھے ہوگئے، حکومت مارکھارہی، حکومت کو بابا وژن اپنانا ہوگا، تبھی کامیابی ہوگی، ورنہ مار کھاتی رہے گی—فوٹو فائل

مستنصر حسین تارڑ کا کہنا ’’کچھ لوگوں کو ’کیسے ہو‘ نہیں بلکہ ’کیوں ہو‘ کہنے کو دل کرتا ہے، واقعی کچھ لوگ تو ایسے کہ بس نہ پوچھیں، جیسے لڑکی نے لڑکے سے جب کہا ’’تم صرف دوبار مجھ سے ملے، ٹھیک سے مجھے جانتے بھی نہیں مگر مجھے پرپوز کردیا، کیوں‘‘، تو لڑکا بولا ’’اس لیے کہ میں اسی بینک میں ملازم ہوں، جس میں تمہارے باپ کا اکاؤنٹ ہے۔

‘‘ جیسے بیوی نے جب شوہر سے کہا ’’دیکھو نا سامنے والے 50انچ کا ٹی وی لے آئے اور ہمارے پاس وہی 18انچ کا پرانا ٹی وی‘‘ تو شوہر بولا ’’جانو تم بھی بڑی بھولی ہو، بھلا جس گھر میں تم جیسی خوبصورت بیوی ہو وہاں کون بےوقوف اپناوقت ٹی وی دیکھنے میں برباد کرے گا‘‘۔

یہ سن کر بیوی نے شرماتے ہوئے کہا ’’آپ بھی ناں، بیٹھیے میں ابھی آپ کیلئے چائے بنا کر لاتی ہوں‘‘ لیکن ہم نے دیکھا کبھی کبھار ایسے شانے (سیانے) منہ کی کھائیں، جیسے ایک شانا اونچی آواز میں گانا گاتے، رقص کرتے دفتر میں داخل ہوا، سامنے بیٹھے سینئر کو ایک بڑی سی گالی دی اور اپنی میز پر آلتی پالتی مارکر بیٹھ گیا، اتنے میں دفتر کا دروازہ کھلا، اس شانے کا دوست اندر داخل ہو کر بولا ’’یار میں مذاق کررہا تھا، تمہاری کوئی لاٹری شاٹری نہیں نکلی‘‘۔

ایک روز میں نے جب باتوں باتوں میں شیخو سے کہا، یوں لگے تم اپنے علاوہ سب کو حقیر سمجھتے ہو، بولا، نہ نہ۔ ہم تو یوسفی صاحب کے مرید، وہ کہہ گئے، میں نے تو عرصے سے یہ اصول بنا لیا کہ کسی کو حقیر نہیں سمجھنا کیونکہ جسے بھی حقیر سمجھا وہ فوراً ترقی کر گیا، یہ کہہ کر شیخو لمحہ بھر کیلئے رکا، پھر بولا لیکن تمہاری بات الگ، تمہاری حرکتیں ایسی کہ و ہ بیوی یاد آئے، جس کے شوہر نے داڑھی رکھ لی، پانچ وقت کا نماز ی ہوگیا، سہیلی نے اس کایا پلٹ تبدیلی کی وجہ پوچھی تو بولی۔

کمینہ یہاں منہ کالا کرکے اب حوروں کے چکر میں ہے، میں نے کہا ’’قبلہ آپ بھی اس بیوی کی طرح مکار جس سے اس کے شوہر نے تنگ آکر کہا، میرے رشتے داروں میں کوئی ہے جو تمہیں پسند ہو‘‘، بیوی بولی ’’ارے بدھو، تمہیں کس نے کہہ دیا کہ مجھے تمہارے رشتے دار پسند نہیں، میں تمہاری ساس کوبہت پسند کرتی ہوں بلکہ اسے اپنی ماں سمجھتی ہوں‘‘۔

کہا جائے اگر ٹانگیں لمبی ہوں تو بے شک کٹوا لیں مگر دوسروں کے کام میں نہ اڑائیں، کہا یہ بھی جائے، کچھ لوگوں کو بیمار ہونے کیلئے کسی مرض کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ دوسروں کی خوشیاں دیکھ کر بھی بیمار ہو جاتے ہیں، کہا یہ بھی جائے، وہاں مت جاؤ جہاں لوگ تمہیں برداشت کرتے ہیں، وہاں جاؤ جہاں لوگ تمہارا انتظار کرتے ہیں، یہاں مجھے اپنا شانا دوست (ن) یاد آرہا، وہی دوست جس کا کہنا پاکستانی بیوروکریسی میں اکثریت ا یسی کہ نوکری کے دوران، رشوت، غرور، نخرے، زیادتیاں اور ریٹائرمنٹ کے بعد تسبیح، ٹوپی، تبلیغ اور مسجد کی پہلی صف، جو جگت باز ایسا کہ ممکنہ سسر نے جب پوچھا، بیٹا تمہاری انگریزی کیسی ہے۔

تو بولا، انکل ایک فیصل آبادی سیکورٹی گارڈ بھرتی ہونے گیا، سوال ہوا، انگلش آتی ہے، فیصل آبادی بولا، کیوں، چور انگلینڈ توں آنے نیئں، ایکدن اپنے اس دوست سے پوچھا، یار 23ماہ ہو گئے، تبدیلی سرکار سے کچھ ہو نہیں پا رہا، وجہ کیا، بولا، وجہ نہیں وجوہات، ہوم ورک نہیں، رائٹ پیپل فار رائٹ جاب نہیں، نعرے، وعدے، دعوے سب ہوائی اور بابا وژن مسنگ، میں نے بات کاٹ کر پوچھا، بابا وژن، یہ کیا، بولا، کسی گاؤں میں ایک بابا جی رہتے تھے، انہوں نے کماد (گنے) کی فصل لگائی ہوئی تھی، لیکن مسئلہ یہ، آئے روز بابا جی کے گنے چوری ہو رہے تھے، بابا جی بہت تنگ، بڑی کوشش کی پتا چلے کون یہ چوری کر رہامگر کچھ پتا نہ چلا، آخر کار تھک ہارکر ایکدن بابا جی خود گنے کی فصل میں چھپ کر بیٹھ گئے۔

اِدھر شام ہوئی اُدھر بابا جی کو ایسے لگا جیسے کوئی گنے توڑ رہا، بابا جی اٹھے، دبے قدم چلتے ہوئے مقررہ جگہ پر پہنچے، دیکھا چار لڑکے گنے توڑ رہے، باباجی نے آکر انہیں پکڑ لیا، چند لمحوں بعد بابا جی نے گھبرائے لڑکوں سے پوچھا، تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو، پہلا لڑکا بولا۔

میں آپکے گاؤں کے چوہدریوں کا بیٹا، دوسرا بولا، میں آپکے گاؤں کے کمہاروں کا بیٹا، تیسرا بولا، میں آپکے ساتھ والے گاؤں کے چوہدریوں کا بیٹا، چوتھا بولا، میں ساتھ والے گاؤں کے کمہاروں کا بیٹا، باباجی نے چند لمحے سوچا، پھر چوتھے لڑکے کومخاطب کرکے بولے، چلو یہ تومیرے گاؤں کے چوہدریوں کا بیٹا، یہ میرے گاؤں کے کمہاروں کا بیٹا، یہ ساتھ والے گاؤں کے چوہدریوں کا بیٹا، تم ساتھ والے گاؤں کے کمہاروں کے بیٹے ہو کر میری فصل اجاڑنے آگئے، تمہاری یہ جرأت، یہ کہہ کر بابا جی نے اسکی خوب ٹھکائی کی اور کہا دفع ہو جاؤ، جب وہ لڑکا چلا گیاتو بابا جی تیسرے لڑکے کو مخاطب کرکے بولے، چلو یہ تو میرے گاؤں کے چوہدریوں کا بیٹا، یہ ساتھ والے گاؤں کے چوہدریوں کا بیٹا، تم میرے گاؤں کے کمہاروں کے بیٹے ہو کر میری چوریاں کرتے ہو، تمہاری یہ ہمت، یہ کہہ کر بابا جی نے اسکی بھی خوب ٹھکائی کی اور کہا دفع ہو جاؤ، جب وہ چلا گیا تو بابا جی دوسرے لڑکے کو مخاطب کرکے بولے، چلو یہ تو میرے گاؤں کے چوہدریوں کا بیٹا، تم ساتھ والے گاؤں کے چوہدریوں کے بیٹے ہوکر میری فصل اجاڑنے آگئے۔

یہ کہہ کر بابا جی نے اس کی بھی خوب ٹھکائی کی اور کہا دفع ہوجاؤ، جب وہ چلاگیا تو بابا جی پہلے لڑکے کو مخاطب کرکے بولے، تم میرے گاؤں کے چوہدریوں کے بیٹے، تم اس زعم میں کہ تمہارا والد چوہدری مگر میں تمہارے والد سے بڑا چوہدری، تمہاری یہ جرأت، یہ کہہ کر بابا جی نے اس کی بھی خوب ٹھکائی کی اورکہا دفع ہوجاؤ، یہ سنا کر میرا دوست (ن)بولا۔

ذرا سوچو، اگر بابا جی چاروں کو اکٹھا مارنے کی کوشش کرتے تو چاروں مل جاتے، الٹا بابا جی کو مار پڑ جاتی، بابا جی نے ایک ایک کرکے سب کو مارا، بس حکومت یہیں مار کھا رہی، وہ بیک وقت سب کو مارنے کے چکر میں، سب اکٹھے ہوگئے، حکومت مارکھارہی، حکومت کو بابا وژن اپنانا ہوگا، تبھی کامیابی ہوگی، ورنہ مار کھاتی رہے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔