بلاگ
Time 18 جولائی ، 2020

خوش قسمت عمران خان

وزیراعظم عمران خان کو خود کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے کہ کچھ زیادہ کئے بغیر اندرونی مسائل کے سوا ان کی حکومت کو کوئی خاص خطرہ درپیش نہیں۔

وزیراعظم عمران خان کو خود کو خوش قسمت سمجھنا چاہیے کہ کچھ زیادہ کئے بغیر اندرونی مسائل کے سوا ان کی حکومت کو کوئی خاص خطرہ درپیش نہیں۔ یہ کئی محاذوں پر ناکامی کے باوجود یہ سول ملٹری تعلقات برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے جو اس کے پیشرو نہ رکھ سکے۔

 یہ بھی ان کی خوش قسمتی ہے کہ گزشتہ دوسال میں انہیں تقسیم شدہ اپوزیشن ملی. ان کی حکومت تسلیم کرے یا نہ، وہ اپنے ووٹروں کی توقعات پر پوری نہیں اتری۔

وہ چاہتے ہیں کہ اگلے تین سال میں وہ کچھ کارنامے کرکے دکھائیں. انہو‌ں نے وہ سب کیا جس پر وہ یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ اس کے خلاف تھے. وہ اپنی پارٹی تحریک انصاف کی بائیس سال کی جدوجہد کے بعد اس وقت برسراقتدار آئے جب دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیاں طاقتور حلقوں کا اعتماد کھو چکی تھیں اور انہیں کرپشن کے الزامات کا سامنا تھا 2018 میں الیکشن ہوئے تو سابق وزیر اعظم نواز شریف پہلے ہی سپریم کورٹ کی طرف سے نااہل قرار دئیے جاچکے تھے اور دوسری اہم حریف بے نظیر بھٹو 2008 کے الیکشن سے ایک ہفتے پہلے 27 دسمبر 2007 کو قتل کی جاچکی تھیں.

پیپلز پارٹی انتشار کا شکار تھی. سابق صدر آصف علی زرداری سندھ سے باہر پارٹی کو کارکنوں کی سطح پر اکٹھا نہ رکھ سکے. لیکن نواز شریف کی نااہلی کے باوجود مسلم لیگ ن ایک مضبوط پارٹی کے طور پر سامنے آئی اور پنجاب میں اسی نے اکثریت حاصل کی.

سندھ پیپلز پارٹی کے پاس رہا.لیکن ان دونوں جماعتوں کے ایک دوسرے پر عدم اعتماد نے پی ٹی آئی اور عمران خاں کو موقع دیا اور وہ ان کیلئے دوسال میں کوئی چیلنج پیدا نہ کرسکیں. اپوزیشن کیلئے سب سے شرمناک موقع وہ تھا جب اس نے اکثریت ہونے کے باوجود چئیرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم. اعتماد میں شکست کھائی.اس سے دونوں اپوزیشن پارٹیوں میں باہمی اعتماد مزید کم ہوا.

اپوزیشن مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کے موقع پر مزید بے نقاب ہوئی جب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں پیچھے ہٹ گئیں اور محض علامتی حمایت کی. اس سب کچھ سے کسی کو فائدہ ہوا تو وہ لکی خان ہے. جو حقیقی چیلنج خان کو درپیش ہے وہ اندرونی ہے.خواہ یہ ان کی پالیسیاں، کارکردگی اور بیڈ گورننس ہوں یا ان حلقوں کو خوش رکھنے میں ناکامی جو مبینہ طور پر ہینڈل نہ کرتے تو حکومت کافی پہلے گرگئی ہوتی. موجودہ صورت حال نے وزیر اعظم کو واحد آپشن بنادیا ہے.

ان کی حکومت کو کچھ شک کا فائدہ ملنا چاہئیے کہ کورونا کی وبا کی وجہ سے اسے آئندہ معاشی خرابی اور بے روزگاری کے چیلنج درپیش ہیں. بدقسمتی کی بات ہے کہ قوم نے کورونا جیسے معاملوں پر بھی حکومت اور اپوزیشن کو ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھا.وقت ہی بتائے گا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی کتنی کامیاب ہوتی ہے لیکن ان کا احساس پروگرام بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرح ایک کامیابی ہے جس نے معاشی بدحالی کے زمانے میں غریبوں کو کچھ راحت پہنچائی.

لیکن دوسری طرف آٹے چینی، دواؤں اور دوسری ضروری اشیائے صرف کی قیمتیں بے قابو ہورہی ہیں. ان تینوں چیزوں اور پٹرولیم کی قیمتوں کے بارے میں آزادانہ تحقیقات کی ضرورت ہے. اگر ملزموں کو کوئی ہاتھ نہیں لگاتا اور قیمتیں چڑھتی رہتی ہیں تو محض شوگر کمیشن رپورٹ چھاپنے کا کوئی فائدہ نہیں. عمران خان بڑے وعدوں کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں.

اور لوگوں کو باور کرایا کہ عمدہ کارکردگی کیلئے ان کے پاس اچھی ٹیم ہے. انہوں نے یہ کہہ کر بھی لوگوں کی توقعات بڑھادیں کہ انہوں نے سول سروس اصلاحات، پولیس اصلاحات، اقتصادی اصلاحات اور سب کے یکساں احتساب پر ہوم ورک کیا ہوا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔