27 جولائی ، 2020
یک رنگی کی طرف مائل باغباں بوقلمونی سے ہمیشہ خائف رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں گلستاں میں ایک ہی رنگ اور ایک ہی قسم کے پھول ہوں۔ چمن آرائی کے منصب پر براجمان لوگوں کی خواہش ہے کہ وہ اپنی مرضی اور خواہش کے مطابق گملوں میں رکھے پودوں کی کانٹ چھانٹ کریں۔
اس ضمن میں تازہ قدم اُٹھاتے ہوئے’’تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ‘‘منظور کیا گیا ہے۔ تکلف برطرف، یہ مملکت خداداد جہاں 97فیصد مسلمان آباد ہیں، اگر وہاں اسلام کی بنیادیں لرز چکی ہیں اور اب اسے بچانے کیلئے یہ قانون لانا ضروری تھا تو پھر صلح ہی کرلیں تو بہتر ہے۔ یک رنگی پر قائل باغباں نہیں چاہتے کہ فٹ پاتھوں اور پرانی کتب فروخت کرنیوالی دکانوں کا طواف کرنیوالے نوجوان اپنے اذہان وقلوب کو پراگندہ کریں۔
نئے قانون کے مطابق کتب میں ایسے مواد کی اشاعت پر پابندی ہوگی جو ’’نظریہ پاکستان، پاکستان کی خودمختاری، سالمیت اور سلامتی کو خطرے میں ڈالے، اخلاقی اقدار اور تہذیب کے خلاف ہو، یا بےحیائی کی تشہیر کرے‘‘۔ اتنا تو آپ جانتے ہی ہونگے کہ بھگوت گیتا بھلے سب کیلئے مقدس ہو مگر اس کی تشریح کا اختیار برہمن کو ہے۔ اب برہمن ہی طے کریں گے کہ خودمختاری کس چڑیا کا نام ہے؟ اخلاقی اقدار کسے کہتے ہیں؟نظریہ پاکستان سے کیا مراد ہے؟
پاکستان کی سالمیت اور سلامتی کیا ہے اور تہذیب کی حدیں کہاں سے شروع ہو کر کہاں پر ختم ہوتی ہیں۔ پنجاب کے محکمہ تعلقات عامہ یعنی ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشنز کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی چھاپہ خانے یا کتب خانے پر چھاپہ مار کر کسی کتاب کا مسودہ ضبط کر سکے چاہے وہ شائع ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔
ڈی جی پی آر سے اجازت لئے بغیر کسی بھی کتاب کو شائع یا نشر نہیں کیا جا سکے گا۔ کسی بھی کتاب یا مواد کو شائع یا نشر کرنے سے پہلے ڈی جی پی آر سے اجازت لینے کیلئے درخواست دینا ہوگی اگر ڈی جی پی آر کو یہ محسوس ہو کہ اس کتاب یا مواد میں قومی مفاد یا تہذیب کے خلاف کوئی چیز ہے تو اسے شائع یا نشر کرنے کی درخواست رد کر دی جائے گی۔
الفاظ کو ہتھکڑی پہنانے کی یہ پہلی کوشش نہیں بلکہ قیام پاکستان کے فوری بعد ہی نظریہ پاکستان، قومی سلامتی، ملکی مفاد اور اسلام کی بنیادیں کھوکھلی کرنے والوں کی سرکوبی کی مہم شروع کردی گئی تھی۔ قائداعظم کے آنکھیں بند کرتے ہی مسلم لیگ کی حکومت نے پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ نافذ کرکے اسی طرح نظریہ پاکستان کی بنیادیں مضبوط کرنے کی کوشش کی جس طرح بزدار حکومت ملکی سلامتی کے تحفظ کے لئے کوشاں ہے۔
جو صحافی اور لکھاری حکومت پر تنقید کرنے کی جسارت کرتے، انہیں پبلک سیفٹی ایکٹ کی خلاف ورزی کے الزام میں دھر لیا جاتا۔ ضمیرنیازی کی کتاب ’’صحافت پابند سلاسل‘‘ کے مطابق احمد بشیر اور طفیل احمد خان نوائے وقت پبلی کیشنز کے زیر انتظام شائع ہونیوالے جریدے ’’قندیل‘‘میں ادارتی امور کے نگران تھے۔ابراہیم جلیس نے اس قانون سے متعلق ایک فکاہیہ تحریر لکھی جسکا عنوان تھا’’پنجاب سیفٹی ریزر‘‘۔
یہ مضمون شائع ہوگیا تو حکومت کے کارروائی کرنے سے پہلے ہی حمید نظامی مرحوم نے ان دونوں کو طلب کرکے کہا کہ اگلے شمارے میں معذرت شائع کریں۔ دونوں نے انکار کردیا تو انہیں نوکری سے فارغ کردیا گیا اور آئندہ شمارے میں حمید نظامی کے نام سے معذرت شائع کردی گئی۔ لاہور سے شائع ہونیوالے ماہنامہ جاوید میں منٹو کا افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘شائع ہوا تو سعادت حسن منٹو کو تین ماہ قید اور جرمانے کی سزا سنادی گئی۔
اس سزا کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل کی گئی تو جج عنایت اللہ خان جو باریش تھے انہوں نے یہ کہتے ہوئے منٹو کو بری کردیا کہ اگر میں نے تمہیں سزا دی تو تم کہو گے ایک مولوی نے مجھے جیل بھیج دیا۔دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ مذہبی شخصیت کے حامل جج نے منٹو کو بری کردیا مگر جب حکومت نے اس فیصلے کے خلاف لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کی تو لبرل جج کے طور پر مشہور جسٹس منیر نے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے منٹو کو جیل بھیج دیا۔
آپ 1949ء کا پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ اُٹھا کر دیکھ لیں، 1952ء کو سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ ملاحظہ کرلیں،1971ء کے ڈیفنس آف پاکستان آرڈیننس کے مسودے پر نظر ڈالیں یا پھر 2020ء کے پنجاب تحفظ بنیادِاسلام ایکٹ کی شقیں ملاحظہ فرمائیں، تھوڑے بہت ردو بدل کیساتھ ایک ہی جیسے الفاظ اوروہی مبہم اور غیر واضح اصطلاحات نظر آئیں گے جن کو ضرورت پڑنے پر کسی کے بھی گلے میں فٹ کیا جا سکے۔
1949ء سے اب تک کچھ بھی نہیں بدلا۔ کل بھی یک رنگی پر اصرار کرنے والے گلہائے رنگا رنگ سے خوف زدہ تھے، آج بھی بوقلمونی سے پریشان ہیں۔ یہ الفاظ کی چوٹ سے ڈرتے ہیں، سوال سے بے حال ہوجاتے ہیں،کتابوں سے خوف کھاتے ہیں کیونکہ کتابیں سوچ کے بند کواڑکھولتی ہیں،علم وشعور کا رس گھولتی ہیں،گہرے سکوت میں بھی بولتی ہیںاور جہل کو علم کے ترازو میں تولتی ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔