Time 05 اگست ، 2020
پاکستان

ڈینیل پرل قتل کیس: ملزمان کی نظر بندی کا دوسرا نوٹیفکیشن بھی چیلنج

کراچی: امریکی صحافی ڈینیل پرل قتل کیس کے ملزمان کی نظر بندی کا دوسرا نوٹیفیکشن بھی چیلنج ہو گیا۔

ڈینیل پرل قتل کے ملزمان کی نظر بندی کے خلاف درخواست کی سماعت جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔

درخواست گزار کے وکیل ندیم احمد آزر نے حکومت سندھ کے نظر بندی کے دوسرے نوٹیفکیشن کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ بریت کے باوجود احمد عمر سعید، فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ محمد کو نظر بند کیا گیا۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ملزمان 20 سال سے جیل میں ہیں، نظر بند رکھنا نا انصافی ہے۔

وکیل ندیم احمدآزر نے کہا کہ محکمہ داخلہ کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جائے اور ملزمان کو جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا جائے۔

عدالت نے پراسکیوٹر جنرل سندھ اور ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے 20 اگست تک جواب طلب کر لیا۔

یاد رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیل پرل قتل کیس میں چاروں ملزموں کی سزاوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔

صوبائی حکومت کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی تھی جس میں عدالت عالیہ کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

درخواست میں سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی کہ ٹرائل کورٹ کے ملزمان کی سزائیں بحال کی جائیں اور ڈینیل پرل قتل کیس کے مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی سزائے موت بھی بحال کی جائے۔

کیس کا پس منظر

امریکی صحافی ڈینیل پرل کو 2002 میں کراچی سے اغواء کے بعد قتل کردیاگیا تھا جس پر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے احمد عمر شیخ کو سزائے موت اور دیگر 3 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ نے ڈینیل پرل قتل کیس میں عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل جب کہ 18 برس بعد 3 ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

وفاق کا اپیل کیلئے بہترین ذرائع بروئے کار لانے پر زور

دوسری جانب وفاقی حکومت نے بھی امریکی صحافی ڈینیل پرل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے پر سندھ حکومت سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپیل کے لیے بہترین ذرائع بروئے کار لانے پر زور دیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر امریکا سمیت عالمی صحافتی تنظیموں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا جب کہ حکومت سندھ نے رہائی پانے والے تینوں ملزمان کو نقص امن کے قانون کے تحت 3 ماہ کے لیے حراست میں لے لیا تھا۔

مزید خبریں :