بلاگ
Time 06 اگست ، 2020

کیا ہم عمران خان کو ضائع کررہے ہیں؟

فوٹو: فائل

تحریر مکمل کرکے ایک نظر ڈال رہا تھا کہ ہمدم دیرینہ تھرپارکر سے سابق ایم این اے سید خادم علی شاہ کی بھیجی گئی تصویروں نے دل دماغ گل و گلزار کر دیے، نگر پارکر بارشوں کے بعد اتنا سر سبز اور حسین ہوگیا ہے کہ جی چاہتا ہے چلتے ہو تو تھر کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے۔

کاش کوئی چینل اس حسن کو ہم وطنوں کے سامنے لائے ان کی اداسی دور ہو، 14 اگست کو ہر سال یہاں کراچی کے نوجوان فطرت کے روبرو ہونے بڑی تعداد میں پہنچتے ہیں، یہ حسن ضائع نہ ہونے دیں، آج ہم یہ جائزہ لیں گے کہ کیا ہم عمران خان کو ضائع کر رہے ہیں۔

تاریخ میں ویسے دو سال کی مدت کچھ نہیں ہوتی۔ لیکن جب آپ کو اسلام آباد صرف پانچ سال کے لیے ملا ہو تو یہ 2سال نہایت اہم اور فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ آئندہ 3 سال کے امکانات واضح کردیتے ہیں۔ 

میڈیا، سوشل میڈیا، تھڑوں، چوپالوں، دفتروں، جنازوں، شادیوں میں اب یہ عام بات ہورہی ہے کہ کپتان توقعات پر پورا نہیں اترا ہے۔ پی پی پی، پی ایم ایل، ایم کیو ایم سے جن اکتائے ہوئوں نے بلّے پر مہر لگائی تھی۔ وہ بڑے تاسف میں دکھائی دیتے ہیں۔ کیا پہلے کی طرح ان کا یہ ووٹ بھی ضائع ہورہا ہے؟

تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے۔ عقیدت سے ماورا، عشق سے بے نیاز، صرف زمان و مکاں کے تناظر میں تجزیہ کرتی ہے۔ لوگ انہیں سلیکٹڈ کہیں۔ کٹھ پتلی۔ مگر تلخ حقیقت یہی ہے کہ طویل عرصے کی بد عنوانیوں۔ محرومیوں۔ لوٹ مار کے بعد واحد انتخاب عمران ہی تھے۔ بلند قامت، مستقل مسکراہٹ، توانائی، چاق چوبند، واضح سوچ۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے بہت پُر عزم۔ نوجوان واقعی دل دے بیٹھے تھے۔

عشق میں شتابی بھی ہوتی ہے۔ ہزار بد گمانیاں بھی۔میں تو کئی دہائیوں سے بڑی بڑی شخصیتوں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے دیکھتا آرہا ہوں۔ کوئی بھی بہت زیادہ مثالی اور فرشتہ نہیں ہوتا۔ بس یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ وہ جس لمحے تخت نشین ہوتا ہے اس کی اقلیم میں آباد انسانوں کو کیا مسائل درپیش ہیں۔ کیا اس نے ترجیحات درست متعین کیں۔ اور ان کے حل پر توجہ دی۔ کیا اس کی ٹیم بھی اس تناظر میں منتخب کی گئی۔

کیا اس نے فیصلے بر وقت کیے۔ جنہوں نے صحیح وقت پر صحیح فیصلے کیے وہ آج بھی پاکستانیوں کے دلوں پر حکومت کررہے ہیں۔

کیا ہم توانائی سے بھرپور عمران خان کو ضائع کررہے ہیں، کیا ہم انہیں سازگار ماحول نہیں دے سکے  یا عمران خان نے اس قوم کو ضائع کردیا جو بڑے بڑے امتحانوں سے سرخرو ہوکر نکلی۔ جس نے عظیم المیے برداشت کیے۔ جس نے اپنے حقوق سے محرومی کے باوجود۔ اپنے پیٹ پر پتھر باندھ کر اس ریاست کو مضبوط ہونے دیا۔

جس کے بیٹوں نے ترقی یافتہ ملکوں میں جاکر اپنی صلاحیتیں منوائیں۔تاریخ سرگوشی کررہی ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم بہت سے با صلاحیت لوگوں کو ضائع کرچکے ہیں۔کیا یہ پارلیمنٹ، وزیر اعظم ہائوس، ایوانِ صدر، سیکرٹریٹ، منسٹر کالونیاں سیم زدہ زمینیں ہیں کہ یہاں اچھے توانا پودے بھی مرجھاجاتے ہیں۔

پہلے تو عمران خان کی تقریر۔ تدبیر۔ تجویز۔ کی طاقتیں کنٹینر پر ضائع کی گئیں۔ اتنے طویل دھرنے۔ کروڑوں روپے کے اخراجات سے جو فوائد نتائج مقصود تھے وہ تو حاصل نہیں ہوئے بلکہ اس بے نتیجہ مشق کو ایک عظیم المیے کی وجہ سے ختم کرنا پڑا۔اب یہ جو 2سال ہیں۔

کیا اندر حالات سازگار نہیں تھے۔ کیا وائی فائی نہیں تھا۔ بار بار کہا جارہا تھا You are offline ۔ آپ لائن پر نہیں ہیں۔ آن لائن ہونے کی کوششیں کامیاب کیوں نہ ہوسکیں۔لیڈروں کو اصل راستے سے دور کرنے کی کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ انہیں فروعی مسائل اور نمائشی اقدامات میں الجھایا جاتا ہے۔ برسوں کے تجربہ کار جغادری بیورو کریٹ ہمرنگ زمیں جال بچھاتے ہیں۔

لوگوں کو دکھ ہوتا ہے کہ سارے محکموں میں کرپشن اب بھی اسی طرح ہے۔ پرانے لٹیروں کو قابو میں کرنے ۔ سزائیں دلوانے میں پراسیکیوشن۔ انصاف کا ناقص نظام ضرور حائل ہے۔ لیکن ایسی کونسی اصلاحات کی گئی ہیں جن کی وجہ سے پولیس اسٹیشنوں اور چھوٹی عدالتوں میں حق الخدمت مانگنے کا موقع ختم ہوگیا ہے۔

گھروں کی تعمیر میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے اپنا حصّہ مانگنا چھوڑ دیا ہو۔ دکانداروں نے منافع کی شرح کم کردی ہو۔ نوکریاں میرٹ پر ملنے لگی ہوں۔ عالمگیر وبا کورونا سے نمٹنے میں بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی عادت جاری رہی۔ایک حکمران ہونے کی حیثیت سے کونسی نئی اچھی روایات قائم کی گئی ہیں۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ عوام پرانے سیاست گروں کو واپس نہیں دیکھنا چاہتے۔ کورونا کے بعد دنیا بدل گئی ہے۔

سیاسی تبدیلیوں۔ اقتصادی بد حالی اور سماجی تعمیر کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے۔دنیا بھر میں نئی قیادتوں کا ظہور ہورہا ہے۔

عمران کے پرستار ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ قوم کو اعتماد میں لیں کھل کر بتائیں کہ وہ کونسی زنجیریں ہیں جو انہیں مرضی کے مطابق پائوں ہلانے نہیں دیتیں۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم کریں۔ ساتھیوں کی غلطیاں چھپانے کی بجائے ان پر انہیں سزائیں دیں۔ اچھا کام کرنے والوں کی تعریف میں بخل نہ کریں۔ قوموں کی تقدیر بدلنے والے لیڈروں کی کتابیں پڑھیں۔ ان کے بارے میں فلمیں دیکھیں کہ انہوں نے سستی مقبولیت حاصل کرنے کی بجائے سخت فیصلے کیے۔ اور تاریخ کا دھارا بدل دیا۔

اس کے لیے مثالیں افریقہ ایشیا میں موجود ہیں۔ آپ نے صحیح کہا ہے کہ میرا متبادل کوئی نہیں۔یہ آپ کی خوش قسمتی ہوسکتی ہے کہ آپ اپنی توانائی۔ صلاحیتیں درست سمت میں استعمال کریں۔ اس کے لیے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو صلح جو، مفاہمت، سب کو ساتھ لے کر چلنے والا۔ یا پھر سخت گیر، سفاک، اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے والا۔ قوم کو آگے اور آگے لے جانے والا۔ درمیان والا۔ بروقت فیصلہ نہ کرنے والا صرف ضائع ہوتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔