10 اگست ، 2020
سپریم کورٹ کے کراچی میں بل بورڈز فوری ہٹانے کے حکم کے بعد انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کرتے ہوئے پینا فلیکس تواُتار لیے گئے لیکن اصل خطرہ لوہے کے ڈھانچے چھوڑ دیے۔
چند سال قبل کراچی بل بورڈز کا جنگل بنتا جارہا تھا لیکن تیز ہواؤں اور بارشوں میں انسانی جانوں کو بھی نگل رہا تھا تو ایسے میں سپریم کورٹ نے 2016 میں انسانی حقوقی کی پامالی اور جانی نقصان کے پیش نظر دیو قامت بل بورڈز پر پابندی عائد کردی۔
پابندی کے بعد ایڈورٹائزرزُ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس پر انہیں اشتہار پیسٹنگ کی اجازت ملی لیکن یہاں انگلی پکڑانے پر اکثر لوگ ہاتھ تھام لیتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر ایک بار پھر بل بورڈ مافیا اور ضلعی لوکل ٹیکسز اور کنٹونمنٹ بورڈ کے ہتھے چڑھ گیا۔
ہزاروں روپے سرکاری خزانے میں لاکھوں کروڑوں جیبوں میں بھرنے کے شوقین افسران نے تو اندھی مچا دی لیکن چند روز قبل مون سون بارشوں کے چوتھے اسپیل میں میٹروپول چورنگی کے قریب ایک معمر شخص پر بل بورڈ گر گیا جس پر اعلیٰ عدالت نے پھر سو مو ٹو لیا اور اب پھر سے انتظامیہ نے ڈونگی آپریشن شروع کردیا ہے۔
شہر بھر سے عدالت کے برہم ہوجانے کے بعد صرف پینافلیکس اتارے جارہے ہیں لیکن لوہے کے فریم اب بھی لگے ہوئے ہیں جن سے کسی بھی وقت کوئی بھی جانی نقصان ہوسکتا ہے۔
ضلع جنوبی اور شرقی میں ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ بل بورڈز نصب ہیں اورعدالت کو مطمئن کرنے کے لیے ضلع جنوبی میں دو افسران کو معطل بھی کیا گیا لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر کمشنر کراچی کہاں تک عمل کروا پاتے ہیں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں شہر میں بل بورڈ گرنے سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران اعلیٰ عدالت نے پورے کراچی شہر سے تمام سائن بورڈ اور بل بورڈز ہٹانے کا حکم دیا ہے۔