بلاگ
Time 12 اگست ، 2020

ہے مشق سخن جاری

فوٹو فائل—

آج سے 72سال پہلے 11؍اگست 1947کو جناح نے پاکستان کا سیاسی نقشہ پیش کیا تھا۔ آئین اور قانون کی حکمرانی کی بات کی تھی۔ ملک کو کیسے آگے بڑھنا تھا اور ہم کیسے آگے بڑھے وہ ہمارے سامنے ہے۔ ہم نے وہ سب کچھ کیا جس کی نفی قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی۔

کشمیر تو بنے گا پاکستان مگر پاکستان کب بنے گا پاکستان کیونکہ ہم تو ہر 10سال بعد ایک ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے میں لگ جاتے ہیں۔ میں تو جب سے پیدا ہوا ہوں ایک عام آدمی کے پاکستان کی تلاش میں ہوں جس کے لئے میرے آبائو اجداد نے قربانی دی۔ اب تو سوچتا ہوں اخبارات میں اشتہار برائے گمشدگی دوںکہ اگر عام آدمی کا پاکستان کسی کو ملے تو برائے مہربانی قریبی پولیس اسٹیشن کو اطلاع دیں۔

تصور کریں سات دہائیوں میں سات سیاسی تجربات۔ پہلا تجربہ:پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ پاکستان کی پیدائش کے چند سال بعد ہی اپنی موت آپ مر گئی کیونکہ جناح کی وفات کے بعد ہی تقسیم در تقسیم کا شکار رہی۔ اصل مسئلہ اکثریت کو برداشت نہ کرنا تھا۔

ماشاء اللہ انڈین سول سروس سے آئے ہوئے افسران نے جن کی تربیت انگریزوں نے کی تھی انہوں نے تمام قوانین کو پاکستان کے قانون کا حصہ بنا ڈالا جو نہ صرف آزادی اظہار کو سلب کرنے کیلئے تھے بلکہ شہری آزادیوں کے خلاف تھے۔

دوسرا تجربہ: سیاسی قیادت ناکام ہوئی تو پہلی بار، میرے عزیز ہم وطنو کی سدا بلند ہوئی اور ایک نیا پاکستان مارشل لاکے زیر سایہ پروان چڑھنے لگا۔ جنرل ایوب خان جو بعد میں فیلڈ مارشل بھی بنے ملک پر دس سال حکومت کی، نظریہ ضرورت کے تحت آئین اور قانون کے محافظوں نےغیرآئینی اقدام کو درست قرار دیا۔

آمریت کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آمر قابلِ احتساب نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے سوال کرنے کی اجازت ہوتی ہے، بعد میں اقتدار ہوس اور بڑھی تو سویلین روپ میں آنے کیلئےپہلے بنیادی جمہوریت کا تجربہ کیا اور پھر صدارتی الیکشن میں اپوزیشن کی متفقہ امیدوار محترمہ فاطمہ جناح کو ایک جعلی الیکشن میں شکست دے کر صدر بن گئے۔

سویلین بنے تو پہلی بار عوام کا سامنا کرنا پڑا۔ مہنگائی اور خارجہ پالیسی کی ناکامی پر احتجاج ہوا تو اپنے ہی بنائے ہوئے 1962کےآئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار ایک اور آمر جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا۔

تیسرا تجربہ: نئے آمر کے نت نئے کرتوت سامنے آنے لگے۔ ملک میں عام انتخابات کا اعلان ہوا اور 1970میں پہلی بار ایک شخص ایک ووٹ کی بنیاد پر الیکشن ہوئے تو اکثریت جیت گئی اقتدار عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمان کا حق تھا۔

ایک طرف ذوالفقار علی بھٹو نے غیرجمہوری رویہ اپنایا اور اسمبلی کا اجلاس بلانے پر اپنے اراکین کو بھی دھمکیاں دے ڈالیں تو دوسری طرف طاقتور اسٹیبلشمنٹ بھی مجیب کی حکومت بنوانے میں دلچسپی نہیںرکھتی تھی۔ مارچ 1971کے فوجی آپریشن نے علیحدگی کی تحریک کو جلا بخشی اور 24سال بعد ہی دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک بنگلا دیش وجود میں آیا۔ تاریخ میں پہلی پار اکثریت اقلیت سے الگ ہو گئی۔

چوتھا تجربہ:ذوالفقار علی بھٹو کا دور۔ پی پی پی کے پہلا اقتدارسے لوگوں کو بڑی امیدیں تھیں مگر ان چار سالوں میں ملک اندرونی طور پر انتشار کا شکا ر رہا۔ بھٹو صاحب بہت کچھ کر سکتے تھے اگر ان کے اندر کا جاگیردار حاوی نہ آتا۔ 1972کا عبوری آئین اور چند ماہ میں 1973کا پہلا متفقہ آئین ان کا بڑا کارنامہ ہے۔

اسی طرح ایک شکست خوردہ قوم کو 1974میں ایٹمی پروگرام دے ڈالا ایک آزاد خارجہ پالیسی پاکستان اسٹیل ملز کا قیام۔ دوسری طرف میرٹ کا قتل، اظہار رائے پر پابندی ، بائیں بازو کی جماعت نیشنل عوامی پارٹی یر پابندی صوبہ سرحد (ماضی) اور بلوچستان کی حکومتوں کا خاتمہ اپوزیشن رہنمائوں کو پابند سلاسل کرنا اور جلد بازی میں قومی صنعتوں اور تعلیمی اداروں کو قومیانے کی پالیسی نے حزب اختلاف کے لئے اتحاد کا راستہ ہموار کر دیا، ان سب کے باوجودوہ دور بڑا ہنگامہ خیز رہا۔

پاکستان اسلامی بلاک بنانے میںکامیاب رہا۔ اس دوران بھٹو جلدی میں ایک سال قبل الیکشن کا اعلان کر کے پھنس گئے۔ 1977میں الیکشن میں پی پی پی آسانی سے جیت جاتی مگر خود کو بلا مقابلہ جتوانے کا جاگیردارانہ فیصلہ ان کے خلاف گیا۔ تحریک چلی اور پھر ایک اور مارشل لا۔

پانچواں تجربہ: ایک بار پھر میرے عزیز ہم وطنو کہہ کر جھوٹ بولا گیا، جنرل ضیاء الحق کا دور 11سال رہا۔ 90روز میں الیکشن کرا کر بیرکوں میں جانے والے نے اس ملک کاحلیہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا۔ قوم کبھی پہلے اتنی تقسیم نہیں ہوئی تھی، پہلے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی اور اس کے بعد اس کی پارٹی کو تقسیم اور ختم کرنے کی خاطر مختلف تجربات جس میں کاروباری لوگوں کو سیاست میں لانا بھی شامل تھا کر کے ملک کو انتہا پسندوں کے سپرد کر دیا۔ 17؍اگست 1988کو خود بھی ایک فضائی حادثہ کا شکا ر ہو گئے۔

چھٹا تجربہ:1988 سے 1999تک پانچ حکومتیں آئیں اور برطرف سب سے پہلے محمد خان جونیجو پھر دوبار بےنظیر بھٹو کی حکومت،ایک بار نواز شریف کی حکومت آئین کے 58-2(B)کا شکار ہوئیں۔

کرپشن پر حکومت ہٹانے اور کرپشن کے ذریعہ حکومت لانےکے تجربات ہوتے رہے اور 12؍اکتوبر 1999کو پھر فوجی حکومت آئی، ایک بارپھر مارشل لانافذ کیے بغیر مارشل لا لگ گیا۔ ایک بار پھر نظریہ ضرورت، کام آگیا۔ جنرل(ر) پرویز مشرف 9سال اقتدار میں رہے۔

ان کا نشانہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) رہیں۔ دونوں جماعتوں کو توڑا گیا۔ ان کا اقتدار وکلا تحریک کے نتیجے میں 2008کو ختم ہوا مگر اس دوران محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت نے سیاست کو شدید نقصان پہنچایا۔

ساتواں تجربہ:2008سے 2014تک ملک میں انتخابات بھی ہوئے اور حکومتوں نے اپنا وقت یعنی پانچ سال پورے بھی کئے مگر تصور کریں 2008میں ایک صفحہ اول پر چھوٹی سی خبر چھپی کہ فوج الیکشن میں غیرجانبدار رہے گی۔ اور ہمیں نتائج پتا چل گئے۔

پہلی بار ایک تیسری سیاسی قوت پاکستان تحریک انصاف ابھر کر سامنے آئی اور اب آٹھواں تجریہ برسر اقتدار ہے۔ لوگوں کو امید ہے کہ شاید یہ تجربہ کامیاب رہے ورنہ پھر… میں ہوں نا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔