18 اگست ، 2020
’’یہ کنٹرول کر لیا اب وہ کنٹرول کر لیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا‘‘نائن الیون اور نیونارمل کے بعد کا زمانہ عجیب ہے دنیا بھر میں یہ وبا عام ہو گئی ہے، مسائل کا حل کنٹرول میں ہے جبکہ صدیوں کی انسانی تہذیب کا ثمر تھا’’ مسائل کا حل آزادی دینے میں ہے‘‘ اٹھارہویں صدی سے آزادی کا آئیڈیا دنیا میں مقبول ہوا اس نے 3صدیوں کے دوران انسان کو غلامی، معاشی بندھنوں، سیاسی پابندیوں اور سماجی زنجیروں سے آزاد کر دیا صرف بیسویں صدی میں سو سے زیادہ ممالک میں جمہوری نظام آیا ملک آزاد ہوئے۔
انسان خودمختار ہوئے، عورت بیدار ہوئی غرضیکہ ہر حوالے سے بہتری آئی مگر اب ٹرمپ کا امریکا ہو، پیوٹن کا روس ہو، بادشاہوں کا سعودی عرب ہو، جمہوری پاکستان ہو ہر جگہ کنٹرول کنٹرول کھیلا جا رہا ہے۔ آزادیاں کنٹرول، میڈیا کنٹرول، سیاست کنٹرول، معیشت کنٹرول اور سماجی رسوم کنٹرول، تاریخ کا بہاؤ کبھی رکا ہے نہ رکے گا کنٹرول وقتی طور پر آزادی کے سفر کو ٹال سکتا ہےتاخیر کر سکتا ہے مگر بہاؤ پر مکمل بند نہیں باندھ سکتا۔
بہاؤ کو جب بھی روکا گیا اس کے مضر اثرات صدیوں تک رہے۔ ترکی نے کاتبوں کے حق میں پرنٹنگ پریس کو طباعت کی اجازت نہ دی تو مسلم دنیا علم میں صدیوں پیچھے رہ گئی مغلوں کو جہاز رانی کے فن میں فوقیت تھی مگر انہوں نے اسے ترجیح نہ بنایا یوں پرتگیزی انگریزی اور فرانسیسی جہازی بیڑے ہندوستان کے ساحلوں پر چھاتے گئے اور بالآخر اسے غلام بنا کر چھوڑا۔
انسانیت کے قافلے کی ترقی پر نظر رکھیں اور اس کےساتھ قدم ملا کر چلیں ورنہ زمانے کے بہاؤ سے پیچھے رہ گئے تو پسماندگی جان نہیں چھوڑے گی پسماندگی کاسب سے بڑا مظہر کنٹرول ہوتا ہے آپ جتنا کنٹرول بڑھاتے ہیں اتنی آزادیاں کم ہو جاتی ہیں اور آزادی کم ہو جائے تو ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔
کنٹرول کی خواہش صرف آج کے زمانے کی نہیں جب سے انسان اور تہذیب نے جنم لیا ہے تب ہی سے یہ خواہش بھی موجود ہے ۔فرعون بھی مکمل کنٹرول کا خواہش مند تھا مگر موسیٰؑ پیدا ہو کر رہا۔ہٹلر بھی دنیا کا کنٹرول چاہتا تھا مگر سب تدبیریں الٹی ہو گئیں مسولینی اٹلی کو فاشزم کی تجربہ گاہ بنانا چاہتا تھا مگر اس کا کنٹرول نہ چل سکا بالآخر آزادیوں کا دور آکر رہا۔
ٹرمپ کے امریکا میں بھی بالآخر کنٹرول کی سوچ تارتار ہو گی اور پھر سے آزادیوں کا سورج طلوع ہو گا ۔پیوٹن کا روس ہو یا تیسری دنیا کے ممالک بشمول پاکستان یہاں بھی بالآخر مسائل کا حل آزادیوں میں ہے کنٹرول سے ہمیشہ حالات بگڑتے ہیں یاد رکھیں سخت حکومتیں جلد گرتی ہیں اور ڈھیلی ڈھالی حکومتیں زیادہ دیر چلتی ہیں دنیا میں ڈکٹیٹروں نے کم اور آزادی پسندوں نے زیادہ دیر حکومت کی ہے۔
دنیا کی تاریخ اور فلسفے پر اتھارٹی مانے جانے والے مصنف ول ڈیورانٹ(WILL DURANT)نے اپنی کئی جلدوں پر مشتمل تاریخ کا خلاصہ بقول حنیف رامے یہ بیان کیا کہ دنیا میں روز اول سے مساوات اور آزادی کی کشمکش رہی ہے انسان کی خواہش ہے اسے آزادی اور مساوات دونوں مل جائیں مگر جب آزادی ملتی ہے تو مساوات نہیں ملتی مساوات کا معاشی نظام ملتا ہے تو آزادیاں چھن جاتی ہیں ان نابغہ روزگاروں ہستیوں سے اختلاف تو ممکن نہیں مگر میری ناقص رائے میں جنگ اور کشمکش دراصل کنٹرول اور آزادی کے درمیان ہے۔
بار بار کوشش ہوتی ہے کہ آزادیاں سلب کرکے کنٹرول حاصل کر لیا جائے جبکہ معاشرہ اور عوام کسی نہ کسی طرح فکری یا عملی جدوجہد کرکے پھر سے آزادی کے سفر پر دوبارہ سے روانہ ہو جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی روز اول سے کنٹرول اور آزادی کی آنکھ مچولی جاری ہے قیام پاکستان کی بنیاد جمہوری آزادیوں پر تھی قائد اعظم اقلیتوں کی آزادی کی جدوجہد کرتے کرتے اقلیتوں کےلئے الگ ملک بنانے پر لگ گئے مگر بدقسمتی سے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی کبھی میڈیا کنٹرول، سنسر شپ، دفعہ 144 کا نفاذ، ایمرجنسی اور پھر احتسابی قوانین نے آزاد آرا کا گلا گھوٹنا شروع کر دیا یہاں تقریر، تحریر اور فکر محبوس ہوئی نتیجتاً صوبوں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں دوریاں بڑھنے لگیں ہم نے مزید کنٹرول کی کوشش کی کنٹرول جوں جوں سخت ہوتا جاتا ہے آزادی کی تڑپ بھی شدید ہوتی جاتی ہے پھر وہی ہوا ہم کنٹرول کرتے کرتے مشرقی پاکستان کا کنٹرول ہی گنوا بیٹھے۔
افسوس یہ کہ ہم نےالمیہ مشرقی پاکستان سے سبق نہیں سیکھا ،ہونا تو یہ چاہئے کہ آئین میں دی گئی سیاسی، مذہبی اور تقریر و تحریر کی آزادیاں جاری رہیں مگر کنٹرول کے فلسفے میں بہت بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ ایک معاملہ کنٹرول کرنے کے بعد دوسرا مسئلہ کنٹرول کرنا چاہتا ہے یوں کنٹرول کرنے والے کو کبھی چین اور سکون نہیں ملتا ادھر سے آزادی کا کوئی شعلہ بھڑکتا ہے تو ادھر راکھ سے کوئی چنگاری آگ لگا دیتی ہے کنٹرول، کنٹرول کی آوازیں کبھی آزادیوں کو پابند سلاسل نہ کر سکیں بیشتر دنیا آزاد ہو گئی ہے باقی بھی آزاد ہو کر رہے گی۔
مریم نواز شریف نے کنٹرول کو چیلنج کیا اور آزادی کی شمع جلانے کی کوشش کی حالانکہ اس سے پہلے نونی مصلحت کی گہری نیند سو رہے تھے، سیاست کو سڑکوں کی بجائے ڈرائنگ رومز کا حصہ بنا چکے تھے۔ مریم نواز کےساتھ نظرآنے والے کارکن لاہور کے جانے پہچانے چہرے نہیں تھے بلکہ منڈی بہاؤالدین، فیصل آباد، شیخوپورہ اور کے پی سے آئی ہوئی ٹولیاں تھیں ۔
دوسری طرف شریف خاندان کی نشان مزاحمت مریم کی بیٹی کے ہاں بیٹے محمد کی ولادت ہوئی ہے جنید کےبعد نانی مریم کے خاندان میں یہ دوسرا بیٹا ہے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ شریف خاندان بالآخر میاں نواز شریف کے لندن میں بائی پاس آپریشن کی تیاری کر رہا ہے اس بار مریم نواز کو جانے کی اجازت ملے یا نہ ملے بائی پاس کروا لیا جائےگا۔
باقی رہی بات پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر کنٹرول کی ۔میں نے کئی بار وزیر اعلیٰ بزدارکی رخصتی بارے لکھا لیکن میں نیب کے اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے انہیں اقتدار سے رخصت کرنے کا اصولی مخالف ہوں میرے خیال میں آئین میں لکھے راستوں کے علاوہ کورٹس یا دوسرے اداروں کے ذریعے منتخب سیاست دانوں کو کنٹرول کرکے رخصت کرنا آئینی طورپر غلط ہے نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی بھی غلط طریقے سے رخصت ہوئے ۔کنٹرول چل تو رہا ہے مگر ہمیشہ چلے گا نہیں ...
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔