Time 27 اگست ، 2020
بلاگ

واہ سائیں واہ!

فائل فوٹو: عثمان بزدار

سائیں بزدار کی زیادہ تر باتیں تو آپ پچھلے کالم میں پڑھ چکے ، کچھ رہ گئی تھیں ، سوچا یہ بھی آپ تک پہنچادوں، پنجاب ہاؤس اسلام آباد میں یہ پونے دوگھنٹے کی بیٹھک تھی،چند ماہ پہلے عثمان بزدار سے پہلی ملاقات بھی یہیں ہوئی۔

پنجاب ہاؤس میں برے وقت کے اچھے دوست اپنے میجر عامر بھی یادآئے، اکثر چوہدری نثار سے یہیں ملتے،یہیں ایک ملاقات میں چوہدری صاحب نے میجر صاحب کو راضی کیا کہ نواز شریف کو سمجھائیں ،میجر صاحب نے میاں صاحب کو آدھا قرآن سنا دیامگرمیاں صاحب تھے کہ ٹس سے مس نہ ہوئے، سمجھانا کیا تھا،میاں صاحب سمجھے کیا،یہ پھر کبھی ، پنجاب ہاؤس اس لئےبھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ یہاں میں اپنے پسندیدہ امام کعبہ شیخ عبدالرحمن سدیس سے ملا۔

اللہ نے کیا کمال آواز دی ہے انہیں ،ویسے بھولے گا تو خیبر پختونخوا ہاؤس بھی نہیں ،یہاں میں نے دلیپ کمار ،سائرہ بانو کا انٹرویو کیا، یوسف خان المعروف دلیپ کمار ایوارڈ لینے آئے ہوئے تھے ، مجھے ابھی بھی یاد جب میںنے دلیپ کمار سے پوچھا، آپ اپنی حقیقی زندگی میں بھی اتنے ہی رومانٹک ہیں، جتنے فلمی زندگی میں تو اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتے ،سائرہ بانو ہنستے ہوئے بولیں،بالکل بھی نہیں، انہوں نے تو مجھے پروپوز بھی اتنے ان رومانٹک طریقے سے کیا ،سناؤں تو آپ دنگ رہ جائیں گے ،یہ سن کر زیر لب مسکراتے دلیپ کمار نے کہا،بھائی ایک بات تو بتاؤ۔

کبھی آپ نے سنا کہ ایک سرکس میں کام کرنے والا گھر آکر بھی وہی کرتب دکھاتا ہو جو وہ سرکس میں دکھاتا ہے، یا موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلانے والا گھر آکر بھی موٹر سائیکل چلاتا ہو، گھر کی زندگی اور،فلمی زندگی اور، لیکن یہ سچ کہ ہم نے جتنا فلمی ہیروئنوں کو فلموں میں پیار کیا ہوگا ،ا س سے کہیں زیادہ حقیقی زندگی میں اپنی بیگم سے کیا۔

مگریہ نہ کسی بیوی نے مانا اورنہ ہماری بیگم مانیں گی، مجھے اچھی طرح یاد ،اگلے دن دلیپ کمار نے اپنا آبائی گھر دیکھنے پشاور جانا تھا ،وہ اس روز بھی بات بات پر جذباتی انداز میں پشاور کا ذکر چھیڑ دیتے، خود بتایا ، آج میر ی کیفیت اس بچے جیسی جسے اس کا پسندیدہ کھلونا ملنے والا۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہورہی تھی، سائیں بزدار کی ، گپ شپ کے دوران ایک موقع پر سائیں نے کہا، پنجاب بیوروکریسی میں کسی افسر کا نام لیں، میں نے ایک بیوروکریٹ کا نام لیا، انہوں نے اس افسر کی پہلی پوسٹنگ سے موجودہ پوسٹنگ تک سب کچھ بتا دیا، میں نے ایک اور افسر کا نام لیا،انہوں نے بولنا شروع کیا، اسکی پہلی پوسٹنگ وہاں تھی، اس کے بعد یہ وہاں آیا، وہاں سے وہاں گیا۔

وہاں سے وہاں اور وہاں سے وہاں، اس پر فلاں الزام لگا ، اس میں یہ خامیاں ،یہ خوبیاں، میں نے پوچھا، آپ کو یہ سب کیسے حفظ ، بولے ،میرے والد ضیا ء مجلس شوریٰ کے رکن ،ایم پی اے بھی رہے، دومرتبہ میں خود تحصیل ناظم رہا، علاقے کے کام ڈیرہ غازی خان، لاہور سے کروانا میرے ذمہ تھا ، میں کاموں کی فائلیں بناتا، افسروں سے ملنے کا وقت لیتا ، لاہور آکران سے ملتا ،اسی ملنے ملانے میں مجھے پتا چلتا گیا کہ کون ساافسر کہاں سے آیا۔

کون کہاں چلا گیا، کس سے کیسے کام نکلوانا، یہی وجہ مجھے سب افسروں کا بائیو ڈیٹا یاد ، ایک موقع پر میں نے پوچھا، سائیں آپ اتنے ہی بھولے ہیں، جتنے دکھائی دیتے ہیں ،قہقہہ مار کر بولے، آپ کا کیا خیال ہے ،میں نے کہا ، مجھے تو آپ بہت’ کایاں‘ لگتے ہیں ،ہنس کر کہا، آپ ٹھیک سمجھے۔

باتوں باتوں میں ،میں نے پوچھا، آپ کے خیال میں عمران خان کو آپکی کیا خوبی پسند ہے ،کہا ،یہ تو آپ خان صاحب سے پوچھیں ، میں نے کہا، اچھا یہ بتائیں ،آپ کو عمر ان خان کی کیا خوبی سب سے زیادہ پسند، کہنے لگے ،ان کی غریبوں سے محبت،میں نے کہا ، یہ تو ان ڈائریکٹ آپ اپنی ہی بات کر رہے ہیں ، ہنس کر کہا، یہی سمجھ لیں، میں نے کہا، ویسے اب تو آپ غریب نہیں رہے ، بولے ،کیوں، کیا میری لاٹری نکل آئی ہے، میں نے کہا۔

سائیں آپکی نکلی تو لاٹری ہی ہے لیکن مزے کی بات یہ کہ آ پ نے لاٹری کا ٹکٹ بھی نہیں خریدا تھا، اس پر بہت ہنسے ، میرے اس سوال پر کہ سنا ہے آپ میٹنگوں میں زیادہ تر خاموش رہتے ہیں ،بس شروع میں ویلکم اور آخر پر تھینک یو کہتے ہیں، فائل ورک میں بھی ماٹھے ہی ہیں ۔

ان کا جواب تھا، کچھ میں کم گوہوں اور کچھ جھوٹ بہت پھیلایا گیا ہے، میٹنگ میں جہاں مجھے بولنا ہوتا ہے وہاں میں بولتا ہوں اور فائل ورک بھی ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے، میر ا سوال تھا، سناہے کہ احسن جمیل گجر اور فرح صاحبہ کا پنجاب کے معاملات میں کافی عمل دخل ہے، جواب دیا، بالکل جھوٹ، میری دونوں سے آخری ملاقات ڈیڑھ پونے دوسال پہلے سپریم کورٹ میں ہوئی تھی۔

یہ تو تھے سائیں بزدار، سب نصیب کی بات ،وزارت اعلیٰ کے خواب جہانگیر ترین نے دیکھے، نااہل ہوگئے، اب تو رن آؤٹ ہو کر لندن، شاہ محمود قریشی ایک مضبوط امیدوار ایم پی اے کا الیکشن ہا ر گئے، سنا گیا، اس ہار کے پیچھے جہانگیر ترین تھے ، مطلب کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے ،گورنر سرور کے دل کا ارمان بھی تھا وزیراعلیٰ بننا، مگر سینیٹر، پھر گورنر شپ، یعنی بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی۔

آجکل وہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو گورنر ہاؤس میں واک ،سوئمنگ کرتے دیکھ کریقینا گنگناتے ہوں گے ’’دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے‘‘ علیم خان بھی دل ہی دل میں وزارت اعلیٰ کی خواہش لئے نیب کی قید بھگتا کراب سائیں بزدار کابینہ کے ممبر، یہ علیحدہ بات انہوں نے ابھی ہمت نہیں ہاری، یاسمین راشد،میاں اسلم اور چار اور، کسی کی مراد پوری نہ ہوئی، سائیں نہ صرف وزیراعلیٰ بنے بلکہ آج گئے ،کل گئے، اسی ڈھول ڈھمکے میں دوسال بھی بھگتا دیئے ، واہ سائیں واہ ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔