Time 30 اگست ، 2020
بلاگ

شہر بچا سکتی ہیں با اختیار شہری حکومتیں

فوٹو: فائل

کاہے کی اکیسویں صدی؟ ان ساری خود کار مشینوں کا کیا فائدہ۔کراچی سے منتخب ایم این اے، اب صدر مملکت کے پاس ایسا ریموٹ بھی نہ ہو جس کا وہ بٹن ایوان صدر میں بیٹھے بیٹھے دبائیں اور کراچی سے بارش کا پورا پانی سمندر میں چلاجائے۔

ایک ریموٹ گورنر بہادر سندھ کے ہاتھ میں ہو، بٹن دباتے ہی گجر نالہ کناروں سے باہر بہنا بند کردےاورایک ریموٹ منتخب وزیر اعلیٰ کی انگلیاں محسوس کرتے ہی ملیر ندی کو اپنی حد میں رہنے پر مجبور کردے۔

ایسا ہی ایک آلہ سعید غنی کو میسر ہو جس سے شارع فیصل پلک جھپکتے بے آب ہوجائے۔سید ناصر حسین شاہ بھی ایسے ہی ریموٹ سے کھیل رہے ہوں اور کھیل ہی کھیل میں سکھر شہر سے سارا پانی شرافت سے دریائے سندھ کا رخ کر لے ۔

کراچی جو اسوقت ڈوب رہا ہے اس ریاست کو 2000سے مسلسل سربراہ فراہم کر رہا ہے۔ مشرف، زرداری،ممنون اور علوی۔20سال میں کسی نے بھی اپنے کراچی کو بارش سے بچانے کیلئے کچھ سوچا بھی نہیں۔

کتنے بزرگ،نوجوان،مائیں ،بیٹیاں جمعرات کی دوپہر دفتروں کارخانوں سے نکلی ہوئی آدھی رات کو گھر پہنچ سکیں، بہت سے تو اگلی صبح ہی پہنچے۔ بستیاں ڈوب گئیں سڑکیں دریا ،گلیاں ندیاں بن گئیں۔پانی گھروں میں گھس گیا ۔یہ پہلی بار نہیں ہوا ’’یہ نصف صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں‘‘ میں 1967میں لاہور سے کراچی آیا پہلی بارش میں آئی آئی چندریگر روڈ کو جل تھل دیکھ کر اخبار جہاں میں لکھا تھا کہ شہر قائد کو بسانے والے شاید اللہ کی رحمت کی توقع نہیں کرتے تھے اس لئے پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں رکھا تھا!

اب تو سارے شہروں کا یہی حال ہو گیا ہے۔سیاسی حکومتیں آئیں، فوجی سرکاریںآئیں ،آبادی بڑھی ،زمین کی ہوس بھی بڑھی۔ جہاں صرف ایک منزلہ گھر تھے وہاں کئی کئی منزلہ پلازے کھڑے ہوگئے ۔جمہوریت آتی ہے تو پلاٹ الاٹمنٹ بھی ساتھ لاتی ہے، سب سے پہلا حق منتخب ایم این اے، ایم پی اے کا ہوتا ہے، پلاٹ ختم ہوجائیں تو رہائشی پلاٹوں کی کمرشلائزیشن کا کاروبار شروع ۔غیر سیاسی قوتیں بھی آبادکاری میں پیچھے نہیں رہیں، ہر شہر میں نصف سے زیادہ زمین ان کے پاس ہوتی ہے۔ بارش بہت مساوی سلوک کرتی ہے کچی آبادیاں، ڈی ایچ اے میں سیلابی برہمی یکساں رہی۔

انجینئرنگ ماسٹر پلان سب ہوس زر کی نذر۔الیکشن انجینئرنگ تو فٹ رہتی ہے کنسٹرکشن انجینئرنگ جگہ جگہ ابل پڑتی ہے۔میں گلشن اقبال کے جس بلاک میں رہتا ہوں وہاں ہمارے گھر سے پہلے صرف دو گھر رہ گئے ہیں باقی سب نئے نئے برانڈز اور بیوٹی پارلرز میں بدل چکے ہیں گٹر وہی 50 سال پرانے ہیں ۔

کبھی کسی رہائشی سے نہیں پوچھا جاتا کہ انہیں کمرشلائزیشن پر کوئی اعتراض تو نہیں ۔ہمارے پرکھے جنگلوں میں شہر آباد کرتے تھے ہم نے بڑے شہروں کو جنگل بنادیا ہے ۔

جمعرات کو کراچی میں انسان کسی جنگل میں پھنسے لوگوں کی طرح سہمے ہوئے تھے۔ایسا نہیں ہے کہ کسی نے آج تک سرکار اور عوام کی توجہ اس طرف مبذول نہیں کروائی۔

شہری منصوبہ بندی کے ماہر عارف حسن نے تو کتابیں لکھ کر حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بجائیں ، این ای ڈی کے پروفیسر نعمان شہری انجینئر نگ ،تجاوزات پانی کی فراہمی ، نکاسی پر ایک عرصے سے لکھ رہے ہیں ۔

میں کراچی کو ڈوبتے ابھرتے دیکھتا ہوں اس لئے یہاں کا درد بانٹ رہا ہوں عطا ءالحق قاسمی ،آئی اے رحمان، اظہار الحق ،ایاز امیر ،رحیم اللّٰہ یوسف زئی، ناصر علی سید، پناہ بلوچ اپنے اپنے شہروں کی بات کریں ،کہیں بھی ماسٹر پلان کی پابندی نہیں کی جاتی۔مکان تو کمرشل ہوہی رہے ہیں ذہن بھی کمرشل ہو رہے ہیں ۔

نسل کی نسل کمر شل ہو گئی ہے،کمرشل ازم ہی عبداللہ حسین کی اداس نسلیں پیدا کرتا ہے اللّٰہ کی دی ہوئی زمین بہت ہے ہم آسمان للکارتی عمارتیں کیوں بناتے ہیں ۔نئے شہر آباد کریں سڑکوں پر دو منزلہ پل، اوور ہیڈ شہریوں کے قاتل بن گئے ہیں بارش ہوتے ہی شہر میں سب سے زیادہ بھنور یہی بناتے ہیں سب سے زیادہ گاڑیاں ان کے پاس ہی ڈوبتی ہیں۔ سیاسی ادوار میں نا لے بھی الاٹ کروائے جاتے ہیں۔

ان پر مارکیٹیں بن گئیں ۔گھر نیچے ہوگئے سڑکیں اونچی ، انسان پست کاروبار بلند۔یہ تو سب کچھ ہوچکا ۔کمانے والے کھا گئے ۔ایم این اے، ایم پی اے ٹھیکیدار مستری سب نے اپنی جیب کا سوچا آنے والی نسلوں کی فکر نہیں کی۔

اب کیا ہونا چاہئے کراچی، لاہوراور دوسرے بڑ ے شہروں میں اب کثیرالمنزلہ عمارتیں نہیں بنانی چاہئیں نالوں کو آزاد کیا جائے سیاسی علاقے ہوں یا غیر سیاسی نئے گھر جہاں بھی بنیں سڑک اور گلی سے اونچے ہوں اور ہر نئے گھر میں نئی بستیوں میں بارش کے پانی کے لئے ٹینک تالاب لازمی ہوں بڑی سڑکوں، بڑے نالوں کے آس پاس تجاوزات مسمار کی جائیں کراچی ہی نہیں سارے بد حال شہر پکار رہے ہیں با اختیار شہری حکومتیں، شہر بچا سکتی ہیں صرف مقامی حکومتیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔