03 ستمبر ، 2020
کراچی شہر کی قسمت بریانی کی اس دیگ جیسی ہے جو بیک وقت مقامی،صوبائی اور وفاقی باورچیوں سمیت انواع و اقسام کے نیم ماہرین طباخ کی زد میں ہے۔
کسی کا خیال ہے کہ آنچ ہلکی رکھی جائے،کوئی آگ مزید بھڑکانے کا خواہاں ہے، ایک اپنی بے اختیاری کا رونا روتا ہے تو دوسرا اس لئے ماتم کناں ہے کہ اسے بڑے کفگیرکے بجائے چھوٹی سی ڈوئی کیوں تھما دی گئی ہے۔ جن ماہرین کا بس نہیں چلتا، وہ کونے میں منہ بسور کر بیٹھے ہیں مگر جو بریانی کی اس دیگ کے آس پاس ہیں وہ بھی محض گفتار کے غازی ہیں اور خیالی پلاؤ پکاتے چلے جا رہے ہیں۔
چند خانساماں ٹانگ پر ٹانگ رکھے اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ بریانی اچھی بنے تو اس کا کریڈٹ لیا جائے ورنہ لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے دیگر ماہرین طباخ کو اناڑی ثابت کیا جائے۔بزعم خود میر بکاول یا ناظم مطبخ کو بس یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ کوئی باورچی اس کی منشا ومرضی کے بغیر بریانی بنانے میں کامیاب نہ ہو جائے بلکہ اس کی حیثیت برقرار رہے، اس لئے جب بھی کوئی محنت کش طباخ دیگ تیار کرنے کے مراحل طے کرتے ہوئے بہت تیزی سے آگے بڑھتا ہے تو اسے کسی نہ کسی بہانے رسوئی سے باہر نکال دیا جاتا ہے۔
کبھی لوگوں سے یہ پوچھنے کا تکلف بھی کرلیا جاتا ہے کہ وہ کس باورچی کو یہ کام تفویض کرنا چاہتے ہیں،مگر وہ لوگ جسے منتخب کرتے ہیں اس کیساتھ چند ایسے ماہرین طباخ نتھی کردیئے جاتے ہیں جو سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑنے کے منصوبے پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔
اگر کراچی بریانی کا نام سن کر آپ کے منہ میں پانی آگیا ہے اور آپ پانی سے پہلے ہی پریشان ہیں تو پھرکراچی کو ایک ایسی گھسی پٹی فلم سمجھ لیں جس کے کردار تو بدل جاتے ہیں مگر ڈائریکٹر کی مہربانی سے ڈائیلاگ اور اسکرپٹ میں کوئی رد وبدل نہیں ہوتا۔
آپ گزشتہ برس کے بیانات اُٹھا کر دیکھ لیں، ایسے ہی صورتحال کانوٹس لیا گیا، سب نے متاثرہ علاقوں کے دورے کئے،تمام اداروں کو متحرک کیا گیا،صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے عوام کو یقین دلایا گیا کہ بہت جلد پانی کی نکاسی کا بندوبست کرلیا جائے گا لیکن بارشیں ختم ہوتے ہی سب اپنے دھندوں میں لگ گئے۔وفاقی حکومت کا بغض وعناد اپنی جگہ مگر یہ نگوڑی جمہوریت خطرے میں نہ پڑے تو عرض کروں نااہلی کے اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
شہر کے میئر وسیم اختر ہر بار لاچاری و بے بسی کا رونا رونے کے بعد کرسی سے چپک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب آپ میئر منتخب ہوئے تب بھی یہ بات کوئی راز نہ تھی کہ اس بار نہ تو تنظیمی قوت پشت پر ہوگی اور نہ ہی صوبائی حکومت کی طرف سے تعاون دستیاب ہو گا تو اس عہدے سے چپکے رہنے کے بجائے عوام کو حقیقت حال سے آگاہ کرتے ہوئے مستعفی کیوں نہ ہو گئے؟
باقی رہی صوبائی حکومت تو اسے محض یہی شکوہ ہے کہ میڈیا لاہور میں ہونے والی بارشوں کو کوریج کیوں نہیں دیتا اور صرف کراچی کے ڈوب جانے کی بات کیوں کی جاتی ہے؟ اگر میڈیا کو سازش کا حصہ قرار دینے سے آپ کی تسلی ہوتی ہے تو جی بھر کر مطعون کیجئے لیکن حقیقت یہ ہے کہ لاہور میں کئی گنا زیادہ بارشیں ہونے کے باوجود کبھی اس طرح کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی۔ اگرچہ لاہور کی انتظامیہ نے اس بار پہلے جیسی مستعدی نہیں دکھائی لیکن کوئی ایسا علاقہ نہیں جہاں بارش ہونے کے بعد کئی دن تک پانی کھڑا رہا ہو۔
یاد ش بخیر جب سمندری طوفان نیلوفر کراچی کے ساحل سے چند سو کلومیٹر دور دھاڑتا چلا آرہا تھا اور سب لوگ اس طوفان بلا خیز سے بچاؤ کی تدابیر کرنے پر اصرار کر رہے تھے تو سندھ اسمبلی کے اسپیکر آغا سراج درانی نے پہلے تو یہ کہہ کر بات ہنسی میں ٹال دی کہ یہ تو کسی خاتون کا نام ہے۔
جب اس حوالے سے اقدامات کرنے پر زور دیا گیا تو آغا سراج درانی نے فلورآف دی ہاؤس پر کہا کہ جب تک سمندر کنارے عبداللہ شاہ غازی کا مزار موجود ہے کراچی کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ تکلف برطرف، اگر یہ سب کچھ بابا عبداللہ شاہ غازی نے ہی کرنا ہے تو پھر مقامی، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی کیا ضرورت ہے؟کراچی واٹر بورڈ اور اس جیسے دیگر اداروں میں بھرتی کی گئی فوج ظفر موج کس کام کی؟
کراچی کو بابا نعمت اللہ خان کی صورت میں ایک قابل، محنتی اور ایماندار میئر میسر آیا تھا جس کی تعریف اس کے سیاسی مخالفین بھی کیا کرتے تھے مگر ناظم مطبخ کو یہ بات گوارہ نہ تھی کہ اس کی پشت پناہی اور اشیر باد کے بغیر کوئی طباخ یہ کام کر گزر ے اس لئے ایم کیو ایم کی صورت میں نئے باورچیوں کی فوج بھرتی کی گئی۔
جب یہ خانساماں بھی من مانیاں کرنے لگے تو انہیں رسوئی سے نکال دیا گیا مگر اس دوران بھگدڑسے جو نقصان ہوا، اس کا ازالہ نہ کیا گیا۔ اب بھی وقت ہے کہ وفاقی باورچی واپس بلوا لئے جائیں،مقامی اور صوبائی ماہرین طباخ کو کام کرنے دیا جائے۔ممکن ہے پہلی کوشش میں بریانی کے بجائے بھات بن جائے بات اسی طرح بنے گی ورنہ بیانات کے کفگیر ہلاتے رہیں اورخیالی پلاؤ پکاتے رہیں۔