03 ستمبر ، 2020
میرے بعض ہم وطنوں کو پھر گھر چھوڑنے پڑ گئے۔ پھر امدادی کیمپ قائم کیے جارہے ہیں۔ خیمہ بستیاں بس رہی ہیں۔ اس خطے میں ہجرتیں ختم ہی نہیں ہوتی ہیں۔
مجھے پھر مہاجر کیمپ یاد آرہے ہیں۔ رضا کار۔ اپنے بہن بھائیوں کو راشن پہنچانے والے میزبان۔ جانے ہم میں وقتی فائدوں کے لیے دائمی فائدے نظر انداز کرنے کا رجحان کب ختم ہوگا۔
سندھ کے بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہوگئی ہے۔ 30اگست سے صوبائی حکومت کو بلدیاتی حکومتوں سے آزادی مل گئی ہے۔ اب یہاں منتخب میئر، چیئرمینوں کی جگہ ایڈمنسٹریٹر بٹھائے جائیں گے۔ تحلیل کا وقت اور طریق کار تو طے ہے لیکن اس قانون میں شاید نئے انتخابات کے انعقاد کی مدت طے نہیں ہے۔ اس لیے خدشہ ہے کہ ایڈمنسٹریٹری کی مدت میں اضافہ کیا جائے۔ 2013 میں مقامی حکومتوں کے قانون میں ترامیم کر کے سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کو بہت سے اختیارات سے محروم کر دیا۔ ایک فنانس کمیشن بنایا گیا۔ اضلاع کے لیے۔ لیکن وسائل کی تقسیم کے لیے کوئی معتبر ادارہ قائم نہیں کیا گیا۔ بلدیاتی ادارے صوبائی حکومتوں کے محتاج بن کر رہ گئے۔ ان کے اختیارات بھی محدود کردیے گئےاور مالی طورپر انہیں بہت کمزور کردیا گیا۔ یہ ادارے ہر چند تھے نہیں تھے۔ کراچی کے میئر تو چار سال شور مچاتے رہے۔ ہمیں یاد ہے کہ 2016 میں انہوں نے بڑے عزائم کے ساتھ پولو گراؤنڈ میں جیل سے آکر حلف اٹھایا تھا۔ اور کم اختیارات کے باوجود دستیاب وسائل میں کچھ کرنے کے ارادے ظاہر کیے تھے۔
کم اختیارات اور محدود مالی وسائل کے ساتھ ان مقامی حکومتوں کی کارکردگی ہم نے دیکھ لی۔ صوبے وفاق سے تو خود مختاری مانگتے ہیں۔ لیکن اضلاع کو خود مختاری نہیں دیتے۔ ہمارے ایم این اے،ایم پی اے نہ جانے شہری حکومتوں کے با اختیار ہونے سے کیوں گھبراتے ہیں۔ بلا شبہ صوبائی اور قومی اسمبلیاں مقامی حکومتوں سے بالاتر ہیں۔ ملک اور صوبوں کے لیے قوانین بنانا ان کے اختیار میں ہے۔
طوفانی بارشوں نے ہمیں یہ سبق سکھایا ہے کہ ہمارے یہ مقامی ادارے با اختیار ہوتے، ان کے پاس فنڈز بھی ہوتے تو پینے کے پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی کے وہ خود انتظامات کرتے۔ یہ ان کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔ ہزار تحقیق کرلیں۔ آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ خود مختار بلدیاتی اداروں کی تشکیل میں سب سے بڑی رُکاوٹ صرف اور صرف ارکان قومی و صوبائی اسمبلیوں کی ہوس زر ہے۔
پرویز مشرف نے تقسیم اختیارات کے تحت بہت معقول بلدیاتی نظام قائم کیا۔ پہلے ان کے الیکشن کروائے۔ ان کو اختیارات بھی دیے اور فنڈز بھی۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ کراچی کو مشرف نے ایم کیو ایم کی وجہ سے فنڈز دیے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے بلدیاتی انتخابات میں تو ایم کیو ایم نے حصہ بھی نہیں لیا تھا۔ جماعت اسلامی کامیاب ہوئی تھی اور کراچی کے پہلے ناظم بہت ہی فرض شناس، ایماندار اور مشفق نعمت اللہ ایڈووکیٹ تھے۔ انہوں نے انتہائی لگن اور خلوص دل سے کام کیے۔ ان کو صدر مشرف کی حکومت نے پورے فنڈز دیے۔ صرف کراچی ہی نہیں پاکستان کے سب شہروں کو پہلی بار فنڈز ملے۔ سارے شہروں میں بہت دیرینہ مسائل حل ہوئے۔
یہ تو اس آمر کی ضد اور صوابدید تھی کہ یہ بلدیاتی ادارے پورے ملک میں کامیابی سے چلتے رہے۔ ورنہ مشرف کی اپنی قومی اسمبلی کے 150 ارکان نے خط لکھ کر اس نظام کو ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔ ایم این اے، ایم پی اے خواتین و حضرات کی نظریں ان فنڈز پر تھیں جو پہلی بار شہروں کو براہ راست مل رہے تھے۔ ان میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوسرے اداروں کی گرانٹس بھی تھیں۔ اتنے اختیارات تھے اور فنڈز کہ بہت سے صوبائی اور مرکزی وزراء اپنی وزارتیں چھوڑ کر اگلے بلدیاتی الیکشن میں سٹی ناظم بن گئے تھے۔
مقامی حکومتیں جمہوری نظام کی بنیاد ہیں۔ گرائونڈ فلور ہیں۔ صوبائی اسمبلی پہلی منزل۔ قومی اسمبلی دوسری منزل اور سینٹ ایوان بالا۔ آپ بتائیے اگر بنیاد اور گرائونڈ فلور نہ ہو تو اوپر کی منزلیں کیسے مضبوط ہوں گی اور نچلے طبقے سے لیڈر شپ کیسے آئے گی۔
سیاستدانوں نے اختیارات اپنے ہاتھوں میںمرکوز رکھنے کے لیے یہ راگ الاپنا شروع کیا ہوا ہے کہ بلدیاتی ادارے آمریت کی مضبوطی اور طوالت کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ صرف ایک بہانہ ہے۔ دنیا بھر کے مہذب ممالک میںجہاں آمریت کی کوئی روایت نہیں ہے۔ وہاں تو یہ ادارے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔
میں بھی اکثر ترقی یافتہ ملکوں میں جاتا رہتا ہوں۔ آپ بھی جاتے رہتے ہیں۔ آپ کے بیٹے بیٹیاں عزیز و اقارب ایسے شہروں میں رہتے ہیں۔ جہاں کی صفائی ،شہری سہولتوں کی فراہمی کی ہر وقت تعریف کی جاتی ہے۔ بلکہ یہ سہولتیں آپ کے دروازے پر میسر ہوتی ہیں۔ اس کے لیے آپ کو کسی دفتر میں جانا نہیں پڑتا۔ یہ صرف اس لیے کہ وہاں کے یہ بلدیاتی ادارے بہت با اختیار ہیں۔ منظم ہیں۔ ان کے بروقت انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔
تحقیق ہوتی رہتی ہے۔ سہولتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ وہاں بھی صوبائی اسمبلیاں ہیں۔ قومی اسمبلیاں ہیں۔ وہاں کے ایم این اے۔ ایم پی اے تو کبھی مقامی حکومتوں کو اپنا حریف نہیں سمجھتے۔ سٹی کونسلروں، سٹی سربراہوں کی اپنی تنظیمیں ہیں جو سالانہ بنیادوں پر ملتی ہیں۔اکثر مقامات پر سٹی میئر کے اختیارات میں وہاں کی پولیس بھی ہے۔ شہری ادارے ایسا ماحول اور مفاہمت کی فضا فراہم کرتے ہیں کہ کمیونٹی کے مسائل اپنے طور پر حل ہوتے رہتے ہیں۔ پولیس کو مداخلت کی ضرورت بہت کم پڑتی ہے۔
ہمارے ہاں بلدیاتی اداروں کی زبوں حالی۔ کمزوری میں جاگیرداروں۔ زمینداروں۔ سرمایہ داروں اور سرداروں کا بھی دخل ہے۔ ان اداروں کی وجہ سے ان خاندانوں کی اجارہ داری خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ موجودہ نظام میں ہر خاندان اپنے علاقے کے لیے ایک ایم این اے، ایم پی اے ،سینیٹر نکال ہی لیتا ہے۔ تین چار بچے تو ہوتے ہی ہیں۔
با اختیار بلدیاتی نظام میں اپنے علاقے پر گرفت مضبوط کرنے کے لیے دس سے پندرہ افراد کی ضرورت تھی۔ اس لیے ان خاندانوں کو اپنے منیجرز، ملازموں اور مزارعوں کو بھی میدان میں اتارنا پڑا۔لیکن وہ جب کامیاب ہوکر ان کے ساتھ ہی میز پربیٹھنے لگے تو ان کی انا خطرے میں پڑ گئی۔ یہ خاندان اپنی خواتین کو بھی پہلی بار باہر لائے۔ لیکن جب مرکزی حکومت دوبارہ ان کے پاس آئی تو انہوں نے اس بلدیاتی نظام کی ہیئت ہی تبدیل کردی۔ اب چاروں صوبوں میں کمزور بلدیاتی ادارے ہیں۔ ان کے الیکشن بھی باقاعدگی سے نہیں ہوتے ہیں۔
قومی اور صوبائی انتخابات کے لیے تو سیاسی جماعتیں 90روز کے اندر الیکشن پر زور دیتی ہیں لیکن بلدیاتی انتخابات جہاں تک ممکن ہو کسی نہ کسی بہانے ملتوی کیے جاتے ہیں۔
اب اکیسویں صدی ہے آزاد میڈیا اور مضبوط سوشل میڈیا کا دَور۔ شہروں میں رہنے والے با شعور افراد کو چاہئے کہ وہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں۔ اب سندھ میں زور دیا جائے کہ 90روز کے اندر اندر تمام میونسپل اداروں، یونینوں کے انتخابات مکمل ہوں۔ دوسرے صوبوں میں بھی بااختیار بلدیاتی اداروں کے لیے تحریکیں چلائی جائیں۔ جمہوریت کی بنیاد نہیں ہوگی تو جمہوریت کی عمارت کیسے کھڑی رہے گی۔