قرض خوری کا پھندہ اور دست نگری

دست نگر معیشت ہو اور کاروبارِ ریاست قرض کی مے خوری پہ چلتا ہو اور مفت خوری کاروباری طبقوں اور ریاستی اداروں کا شیوہ ہو تو بس افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن ہمارے اسٹرٹیجک اذہان کی کوئی اُڑان تو دیکھے، کون کہہ سکتا ہے کہ اِن کی چا بکدستیاں اور عظیم الشان پیش قدمیاں ایسے ملک میں ہو رہی ہیں جو اُدھار اُتارنے کے لیے اُدھار لینے پہ مجبور ہے۔

لوگو! کمر باندھو کہ اسٹیٹ بینک کے مطابق دو برسوں میں بیرونی قرض اور ادائیگیاں 17.6ارب ڈالرز کے اضافے سے 113ارب ڈالرز ہو گئی ہیں۔ اور اس کے باوجودکہ تحریکِ انصاف کی حکومت نے قرضوں اور سود کی مد میں 24.5 ارب ڈالرز ادا کیے ہیں۔ روپوں میں دیکھا جائے تو پاکستان کا کُل قرض عمران حکومت کے دو سالوں میں 11.35 کھرب روپے اضافے کے ساتھ 36.3 کھرب (36,300ارب) روپے۔ جب کہ گزشتہ دو برسوں میں قرض کی واپسی پر 2.81 کھرب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ جاری مالی سال میں بھی وفاقی حکومت کو 2.2کھرب روپے قرض لینا ہے اور قرض کی ادائیگی کے بعد اُسے اصل زر ملے گا بھی تو صرف 495 ارب روپے۔ ان اعداد و شمار سے یہ نقشہ سامنے آتا ہے کہ آئندہ جتنا بھی قرض ہم لیں گے وہ گزشتہ قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے جاری اخراجات کے لیے بچے گا بھی تو 25 فیصد سے کم اور یہ آئندہ سالوں میں منفی ہوتا چلا جائے گا۔ 

اب پی ٹی آئی، نواز لیگ کو جتنا بھی کوسے اور نواز لیگ کیسے ہی عمران خان کو بہتان دے۔ قرض کے پھندے سے جان چھوٹنے والی نہیں، نہ ہی ان جماعتوں کے پاس قرض سے خلاصی کرتے ہوئے پائیدار اور خود کفیل معیشت کا کوئی ڈیزائن ہے تو پھر اگلی حکومت عمران خان کو کوسے گی بھی تو کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ ماہرینِ معاشیات اسے قرض کا پھندہ (Debt Trap) کہتے ہیں۔ اور جو پنچھی ریاستیں اس جال میں پھنس جاتی ہیں، اُن کی خود مختاری اور آزادی قرض خواہوں یا دولت مند ملکوں کے پاس رہن ہو جاتی ہے۔

 آپ نے دیکھا نہیں ہمارے معزز وزیرِ خارجہ کے کشمیر پہ بیان پر اسلامی برادر ملک کا ردِّعمل۔ چین سے ایک ارب ڈالرز لے کر نذر کیے گئے۔ آخر اسٹیٹ بینک کب تک اتنی بڑی ٹرانزیکشن کو چھپائے بیٹھا رہے گا۔ پھر داد دینی چاہیے جناب شاہ محمود قریشی کو کہ وہ اس کی تردید کرتے ہوئے ذرا بھی نہیں جھینپے۔ 

دوسری طرف مَیں ایک بہت بڑے افسر کا یہ دعویٰ سُن کر ششدر رہ گیا کہ کس طرح دس برس پہلے افغانستان سے امریکیوں کو بھگا دینے کا منصوبہ بن گیا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اُن کے بقول اب جنگی میدان میں فتح کے بعد افغان طالبان کے مقابلے میں کون کھڑا ہو سکے گا، چاہے ہم اسے پسند کریں یا ناں۔ جہاں اقبال کے شاہین ستاروں سے آگے کمند باندھنے پہ تُلے ہوں اور نیچے زمین پہ کھڑا رہنے کی معاشی استعداد بھی نہ ہو تو فاتحہ خوانی تو بنتی ہے۔

مفت خوری (Rent Seeking) اگر معیشت و ریاست کا نصب العین ٹھہرے تو کسی بھی ملک کا دست نگری اور قرض کے پھندے سے نکلنا ناممکن ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کئی بار قرض سے جان چھڑانے کے خاکے بنا بنا کے ہانپ گیا ہے اور خود بھی قرض سے فیضیاب ہوتے ہوئے اُن منصوبوں کو طاقِ نسیاں کی نذر کر چکا ہے۔

پارلیمنٹ نے بھی قانون بنا کر قومی آمدنی میں قرض کی شرح پہ بندش لگائی تھی اور جب سے وہ پابندی لگی تبھی سے ہر سال اس کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے اور عمران حکومت نے تو پچھلوں کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔

پہلے ہم نے امریکیوں اور سعودیوں کا دامن تھامے رکھا، پھر چین بھی مال دینے والوں میں شامل ہو گیا۔ اب جونہی امریکہ افغانستان سے کوچ کرے گا تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران کھولے گئے کھاتے پہلے ہی بند ہو گئے ہیں۔ اوپر سے افغانستان میں ایک اور بڑی خانہ جنگی کا ملبہ ایک بار پھر ہمارے سر لگنا ہے، جبکہ افغان ریاست کو برقرار رکھنے کے لیے اگلے 20 برس 10 ارب ڈالرز سالانہ درکار ہوں گے۔

کیا ہم یہ بوجھ اُٹھانے کے لیے تیار ہوں گے؟ اوپر سے چین و بھارت کے مابین نہ صرف اسلحہ کی دوڑ میں بھارت کا حال بُرا ہوگا، بلکہ بھارت سے ہمارے اسٹرٹیجک مقابلے میں روایتی و غیرروایتی اسلحہ کی دوڑ میں ایک بدحال پاکستان کا کیا ہوگا؟ یہ سوچتے ہوئے دماغ شل ہو جاتا ہے۔

قرض کے شکنجے سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تمام غیرپیداواری کاموں اور منصوبوں پہ قرض لینا بند کر دیں۔ کمرشل قرض خود پہ حرام قرار دیں۔ آسان شرائط پہ اگر قرض لیں بھی تو پیداواری منصوبوں پہ، جو نہ صرف قرض واپس کر سکیں بلکہ منافع بخش رہیں۔ پبلک سیکٹر کی تمام کارپوریشنز کے خسارے پورے کرنا بند کیے جائیں یا اُن کی تشکیلِ نو ایسے کی جائے کہ روزگار بھی برقرار رہے اور نقصانات بھی کم ہوں۔ کیوں نہ ان قرضوں کو رائٹ آف کر دیا جائے یا پھر ایک کارپوریشن بنے جو سارے اندرونی قرضوں کو نپٹانے کا بندوبست کرے۔ 

وفاقی و صوبائی محکموں اور تمام اداروں میں کٹوتی ہو اور اُن کے اخراجات کو کم از کم پچاس فیصد کم کیا جائے۔ بجٹ خسارے کو قرضوں سے نہیں، محاصلات بڑھا کر اور تمام زمینداروں اور سرمایہ داروں کی آمدنیوں پر 30 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے۔ دفاعی اخراجات کو منجمد کیا جائے اور کاسٹ بینیفٹ کے اُصول پہ اس کے بھاری بھر کم غیر دفاعی حصوں کو چھانٹ دیا جائے۔ پیداواری لاگت کم کرتے ہوئے برآمدات کا دائرہ وسیع کیا جائے اور درآمدات پہ سختی اور بڑھا دی جائے۔ تمام اعلیٰ سرکاری ملازمین کی بے شمار مراعات کو ختم کیا جائے۔ جس کا جو کام ہے وہی کرے، نہ کہ دھندوں کو بڑھایا جائے۔ 

اصل نکتہ یہ ہے کہ سیاسی معیشت کے پاور اسٹرکچر کو تبدیل کرتے ہوئے، عوامی شراکت اور حاکمیت اور معیشت میں سماجی شرکت کو تقویت دی جائے۔ اب یہ کرے تو کون؟ ہے کوئی مائی کا لعل یا عوامی جماعت!

مزید خبریں :