05 ستمبر ، 2020
اس کالم میں اس انتہائی حساس مسئلے کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے جس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے کارروائی نہ کی گئی تو پاکستان کو عالمی سطح پہ سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے تقریباً 40 ارکان پر مشتمل’’ آل پارٹیز پارلیمنٹری گروپ فاردی احمدیہ مسلم کمیونٹی‘‘ نے 20 جولائی 2020 کو پاکستان کے خلاف سنگین الزامات پر مبنی انتہائی خطرناک رپورٹ جاری کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں قادیانیوں کے خلاف ظلم و جبر اوربین الاقوامی انتہاپسندی میں اضافہ ریاست کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔
"Suffocation of the faithful؛
The Persecution of Ahmadi Muslims in Pakistan and the Rise of international Extremism"
کے ٹائٹل سے جاری کی جانے والی یہ رپورٹ بنیادی طور پر پاکستان کے خلاف یکطرفہ انکوائری ہے جو کہ برطانوی پارلیمانی گروپ کی چیئرپرسن شوون مکڈونہ کی سرپرستی میں کروائی گئی۔
اس رپورٹ کو انکوائری کا نام دیا گیا لیکن اس میں پاکستانی ہائی کمیشن لندن یا پاکستانی وزارتِ خارجہ سے رابطہ کیے اور ان کا موقف لیے بغیر سنگین الزامات پر مبنی 167صفحات پر مشتمل یہ دستاویز یک طرفہ طور پہ جاری کردی گئی۔
اس برطانوی پارلیمانی گروپ جس میں دو پاکستانی نژاد قادیانی ارکان بھی شامل ہیں نے خود ہی جج، جیوری اور پراسیکیوٹرکا کام کیا ہے اور رپورٹ کو پڑھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہ پاکستان مخالف قادیانی لابی نے خود ہی تیار کی اور اس پہ برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان کے دستخط کرا لیے گئے۔
اس رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر احمدی کو اپنی پیدائش سے موت تک ظلم و جبرکا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ ریاست کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو ووٹ ڈالنے کا مساوی حق دیا گیا ہے، آئین پاکستان کے تحت قادیانی بھی غیرمسلم اقلیت ہیں اور انہیں بھی دیگر اقلیتوں کی طرح ووٹ ڈالنے کا پورا حق ہے۔
رپورٹ کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ اس میں وزیر مملکت پارلیمانی امور علی محمدخان پر بھی قادیانیوں کے حوالے سے سنگین الزام عائد کیاگیا ہے۔ اس رپورٹ میں برطانوی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کو نظرانداز نہ کرے جبکہ عالمی برادری اور برطانوی حکومت احمدیوں کو پاکستان میں ان کے بنیادی حقوق دلوائے جبکہ قادیانیوں کوبرطانیہ اوریورپ میں پناہ گزینوں کا درجہ دیا جائے۔
اس نام نہاد انکوائری رپورٹ میں قادیانیوں کی دو عبادت گاہوں پر سال 2010میں ہونے والے حملوں کا ذکرکرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان میں قادیانیوں کی عبادت گاہیں محفوظ نہیں ہیں جو حقیقت کے برعکس ہے۔
رپورٹ میں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو نشانہ بنانے سمیت متعدد پاکستان مخالف مندرجات شامل ہیں تاہم اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس میں پاکستان پہ اقلیتوں بالخصوص قادیانیوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں ظلم روا رکھنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے برطانوی حکومت اور عالمی اداروں پہ زور دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کو قادیانیوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے اقدامات سے مشروط کریں۔
یکطرفہ رپورٹ میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیاگیا ہے کہ قادیانیوں کو ووٹ کا حق، انہیں لٹریچر چھاپنے کی اجازت اور مذہبی آزادی دی جائے۔ قادیانی مخالف تقاریر اور مبلغین پر پابندی عائد کی جائے جبکہ برطانوی حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیاگیا ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالے کہ قادیانی مخالف قوانین ختم کرے۔ قادیانیوں کے اسکولز،کالجز واپس کرے۔
یہ امر بھی تشویش کا باعث ہے کہ پاکستان کے خلاف برطانیہ کے ایک پارلیمانی گروپ کی طرف سے یہ انتہائی خطرناک رپورٹ جاری ہوئے تقریبا ڈیڑھ ماہ گزر چکا ہے لیکن برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن یا پاکستانی وزارت خارجہ نے تاحال چپ سادھ رکھی ہے۔
یہ تو بھلا ہو ملکہ برطانیہ کی طرف سے ممبر آف برٹش ایمپائر کا اعزاز حاصل کرنے والے معروف پاکستانی نژاد برطانوی اسکالر اور ماہر تعلیم طہٰ قریشی کا جنہوں نے اس رپورٹ کے اجرا کے بعد نہ صرف برطانیہ میں واویلا مچایا بلکہ خصوصی طور پہ پاکستان کا دورہ کر کے پاکستانی صحافی محمد ارتضی کے ہمراہ حکومتی عہدیداران، ریاستی اداروں کے ذمہ داران ،سیاسی و مذہبی رہنماؤں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو رپورٹ کی سنگینی اور اس کے پاکستان پہ مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات سے آگاہ کیا۔
اس صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس پاکستان مخالف رپورٹ کا فوری نوٹس لینا چاہیے جبکہ وزارت خارجہ فوری طور پہ برطانوی ہائی کمشنر کو طلب کر کے نہ صرف سخت احتجاج ریکارڈ کرائے بلکہ وضاحت بھی طلب کی جائے۔
حکومت پاکستان برطانوی حکومت سے اس یک طرفہ اور من گھڑت رپورٹ کو فوری واپس لینے اور اسے انٹرنیٹ سے بھی ہٹانے کا مطالبہ کرے۔ ارباب اختیار اس حوالے سے تحقیقات بھی کرائیں کہ پاکستان کے خلاف اس قدر سنگین رپورٹ جاری ہونے کے باوجود برطانیہ میں مقیم پاکستانی سفارتکار اور دیگر حکام کیوں لا علم رہے اور انہوں نے اس رپورٹ کے اجرا کو رکوانے کے لیے کردار کیوں ادا نہیں کیا ؟ جبکہ برطانوی حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطح پہ اس معاملے کو اٹھا کر اس رپورٹ کی باضابطہ منسوخی کو یقینی بنانا چاہیے کیونکہ یہ رپورٹ مستقبل میں پاکستان کے دشمنوں کی طرف سے مختلف عالمی فورمز پہ ایک ریفرنس کے طور پہ استعمال کی جا سکتی ہے۔
پاکستان اندرونی طور پہ قانون سازی کر کے فیٹف کی جس کھائی میں گرنے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے پاکستان مخالف قوتیں عالمی سطح پہ ایسی رپورٹوں کے اجرا کے ذریعے اسے اسی کھائی میں دھکیلنے کی سازشوں میں مصروف ہیں چنانچہ حکومت پاکستان کو اندرونی چیلنجز سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن اور دیگر تمام فریقین کی مدد سےعالمی سطح پہ کی جانے والی ایسی سازشوں کا قلع قمع بھی کرنا ہوگا۔