Time 09 ستمبر ، 2020
پاکستان

سندھ کی سیاسی تقسیم

بات ’گجر نالہ‘ کی صفائی سے شروع ہوئی تھی اور اب شہر کی صفائی تک آن پہنچی ہے۔ دیکھیں آگے کیا کیا گند صاف ہوگا۔ اللہ بھلا کرے اِن تباہ کن بارشوں کا، سارا گند سامنے آ گیا۔ کیا نالے، کیا سڑکیں، کیا سرجانی اور کیا دیگر پوش علاقے، اب محمودو ایاز  ایک صف میں کھڑے نہ بھی ہوں تو ایک صفحہ پر ضرور نظر  آئے احتجاج کی صورت میں۔

اب وزیراعظم نے 11سو ارب روپے کا، کراچی ٹرانسفارمیشن پلان، کا اعلان کر دیا ہے جس کی نگرانی وفاق اور سندھ پر مشتمل ایک کمیٹی کرے گی جس میں سویلین کے علاوہ فوج کے نمائندے بھی شامل ہوں گے جن کو کچھ بنیادی کام دیے گئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر اس پورے پلان پر تین سے پانچ سال میں مکمل عمل درآمد ہو جاتا ہے جس پر مجھے کچھ شک ہے تو کیا، کراچی بدلے گا۔

وزیراعظم عمران خان جب گورنر ہائوس میں پریس کانفرنس میں یہ اعلان کررہے تھے تو میں ٹی وی پر صرف وزیراعلیٰ سندھ سید مرا دعلی شاہ کے تاثرات پڑھنے کی کوشش کررہا تھا مگر منہ پر ماسک اور چشمہ پہننے کی وجہ سے کچھ پڑھ نہ سکا۔ بعد میں بلاول بھٹو کے بیانات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ کھیل انکے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

ویسے میں بھی حیران ہوں کہ وزیراعظم نے کراچی کا دورہ کیا تھا یا گورنر ہائوس کا کیونکہ پلان کے اعلان سے پہلے تک تو انہوں نے خود جاکر شہر کی حالت نہیں دیکھی تھی۔ کم از کم اپنے حلقہ تک تو وہ ضرور جاتے۔ ناظم آباد نہیں تو نیا ناظم آباد ہی دیکھ آتے یہ بات میں اس لیے تحریر کررہا ہوں کہ یہ پروجیکٹ ان لوگوں نے تعمیر کیا جن کو آپ نے کئی پروجیکٹ میں نمائندگی دے دی ہے۔ اللہ خیر کرے۔

پاکستان کے سیاسی معاملات اتنے پیچیدہ ہیں کہ پتا ہی نہیں چلتا کب کونسا منصوبہ کامیاب اور کونسا ناکام ہو جائے۔ سندھ کے سیاسی معاملات دوسرے صوبوں کے مقابلے میں اس لیے بھی زیادہ گھمبیر ہوگئے کہ یہاں دیہی اور شہری سندھ میں بڑی واضح سیاسی تفریق پائی جاتی ہے اور لگتا ہے یہ خلیج بڑھتی جارہی ہے۔

بنیادی نکتہ اب بھی حل طلب ہے اور وہ ہے اختیارات کی جنگ کا جو وفاق سے صوبوں اور صوبوں سے نچلی سطح تک جانے تھے مگر یہ عمل راستے میں کہیں رک گیا۔ بدقسمتی سے جس ملک کی مردم شماری ہی شفاف نہ ہو وہاں بدگمانیاں جنم لیتی ہیں۔ بات دیہی اور شہری سے زیادہ انصاف کی ہے اگر کراچی کی آبادی ڈھائی سے تین کروڑ ہے تو یہاں کی نشستوں میں اضافہ بھی ضروری ہے۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سندھ کی سیاسی تقسیم کا سب سے زیادہ نقصان خود سندھ کو ہوا۔ ذرا غور تو کریں کہ پچھلے پچاس سال میں یہ صوبہ تعلیم و صحت، امن و امان، گورننس، پولیس، پینے کے صاف پانی اور دیگر معاملات میں آگے گیا ہے یا پیچھے۔ انتہائی سیاسی شعور رکھنے والے لوگ بھی یہ بنیادی بات نہ سمجھ سکے کہ جمہوریت جمہور سے آتی ہے، شور سے نہیں۔

سندھ کی دو بڑی سیاسی اکائیاں آمنے سامنے آکرکھڑی ہو گئیں حکومت ملی تو حکومت نہ کر سکے، سیاسی میدان میں دلیل کا راستہ اختیار نہ کرسکے اور سب سے بڑھ کریہ کہ کرپشن کا کینسر‘ دونوں کو کھا گیا۔ سیاسی تقسیم بھی دلچسپ ہے۔ قومی سیاسی قیادت کراچی سے باہر سیاست نہیں کرتی اور پھر حیران ہوتی ہے کہ ہر بار اندرون سندھ سے پی پی پی کیوں جیت جاتی ہے۔ 1970سے 2018تک کے الیکشن نتائج اٹھا لیں۔

اندازہ ہو جائے گا کہ ماسوائے پی پی پی کے کس جماعت نے اندورن سندھ سیاست کی ہے مگر کمال ہے پی پی پی کا کہ پھر بھی سندھ کے ڈسٹرکٹ آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ کوئی چیلنجز نہیں ہیں تو لگے رہو منا بھائی۔ یہ بھی حیران کن بات ہے کہ سندھ کی قوم پرست جماعتیں ایک پریشر گروپ سے زیادہ نہیں جن کا فائدہ بھی پی پی پی کوہی جاتا ہے۔ لہٰذا اگر قومی جماعتیں سندھ میں سیاسی چیلنج دینے کے بجائے اسلام آباد یا پنڈی کی طرف دیکھتی رہیں گی تو مسئلہ حل نہیں ہوگا چاہے جتنی خراب حکومت ہو اور ناقص کارکردگی رہے۔

پی پی پی کی قیادت کے لئے بھی یہ سنجیدہ سوالات ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اس پارٹی کی پانچویں نسل کی نمائندگی کررہے ہیں۔ جو پارٹی ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں 1967میں قائم کی تھی، اب اس شہر اور صوبہ میں امید وار ملنا مشکل ہو گئے ہیں۔ کراچی جیسے شہر اور لیاری جیسے حلقہ سے اگر ’بھٹو ہار جائے تو، زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘ کا نعرہ اچھا نہیں لگے گا۔ رہی بات شہری سندھ کی توان پچاس سال میں سیاسی رجحانات بدلتے رہے مگر ’لسانی رنگ‘ تبدیل نہیں ہوا۔ شاید پاکستان تحریک انصاف پہلی جماعت ہے جس نے کراچی میں بھی اکثریت لی 14قومی اور 26صوبائی اسمبلی کی نشستیں اورمرکز میں بھی حکومت بنائی۔

سندھ میں شروع میں بائیں بازو کی سیاست بھی مضبوط تھی۔ چاہے وہ طلبہ محاذ ہو یا مزدور اور پارٹی کمیٹیاں ہوتیں۔ 1970کے بعد یاتو پی پی پی کا زور رہا یا مذہبی جماعتوں کا۔ جنرل ضیاء الحق نے اس سیاسی تفریق سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا۔

شہری سندھ کی سیاست نے1987کے بعد نیا موڑ لیا۔ ’لسانی‘ معاملہ لے کر مہاجر قومی موومنٹ قائم ہوئی اور جو پذیرائی اس کو حاصل ہوئی اس کی مثال نہیں ملتی مگر وہ اس کا درست استعمال نہ کرسکے اور ایک ایسی راہ پر چل پڑے جہاں سے واپسی ممکن نہ تھی۔ دہشت گردی سے لے کرچائنا کٹنگ تک شہری سندھ کو سوائے تباہی کے کچھ نہ مل سکا۔

اب پی ٹی آئی ایک مختلف انداز میں آئی مگر اس کی سیاست کا محور شہری سندھ اور وہ بھی کراچی نظر آرہا ہے۔ اگر آئندہ بلدیاتی الیکشن میں عمران خان اپنی جماعت کا مئیر لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو 2023کا الیکشن سندھ کی حد تک پی پی پی اور پی ٹی آئی میں ہی ہوگا اب ایسے میں اگر کراچی میں سر کلر ریلوے چل پڑی، سرکاری بسیں آگئیں، نالے صاف ہو گئے بارشوں میں پانی کھڑا نہ ہوا اور بلدیہ کسی ایک باڈی کے اندر آگئی تو اس کا کریڈٹ کس کو جائے گا؟

یہ سارے کام پچھلے 12سال میں 2013کے بلدیاتی ایکٹ کے بعد سندھ حکومت کرسکتی تھی اور اس سے پہلے ایم کیو ایم مگر دیہی سندھ کو کون دیکھے گا، یہ پی پی پی کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

خدارا اپنا طرز سیاست تبدیل کریں۔ اپنی ترجیحات تبدیل کریں۔ سندھ کی سیاسی تقسیم کو پی پی پی آج بھی ختم کرسکتی ہے صرف معاملات کودرست سمت میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مزید خبریں :