12 ستمبر ، 2020
پاکستان کا ڈومیسٹک کرکٹ سیزن 30 ستمبر سے نیشنل ٹی ٹوئنٹی کپ کے ساتھ شروع ہو رہا ہے لیکن اس سے پہلے ہی سابق ٹیسٹ کرکٹر اور لاہور قلندرز کے ڈائریکٹر عاقب جاوید نے ڈومیسٹک کرکٹ کی ٹیموں کی سلیکشن، کوچز کی تقرری، ہائی پرفارمنس سینٹر میں تعیناتیوں اور مستقبل کے وژن پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔
سابق فاسٹ بولر کا کہنا ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ پاکستان کرکٹ کے معاملات کس طرف جا رہے ہیں اور یہ لوگ کرنا کیا چاہ رہے ہیں، اس وقت نظر تو یہ آ رہا ہے کہ پی سی بی پر جو تنقید کرتا ہے، اس کو نوکری دے دی جاتی ہے۔
جاوید میاںداد کا معاملہ سب کے سامنے ہے، ایک دن جاوید میاںداد نے کرکٹ بورڈ کی پالیسیوں پر تنقید کی، اگلے روز وہ سب سے معافی مانگتے ہیں تو پھر فیصل اقبال کو بلوچستان ٹیم کا ہیڈ کوچ لگا دیا جاتا ہے۔
دوسری طرف عمر گل پی سی بی کرکٹ کمیٹی کے ساتھ ڈومیسٹک ٹیم کا بھی حصہ ہیں، فیصل اقبال اور عمران فرحت کا ایک ساتھ ڈبیو ہوا، اب ایک بلوچستان کا کوچ اور دوسرا کھیل رہا ہے۔
عاقب جاوید نے سوال اٹھایا کہ عمر گل، عمران فرحت، محمد طلحہ اور عمران خان جیسے کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ کھیل کر پاکستان کو کیا فائدہ دیں گے، جن کا پاکستان کے لیے کوئی مستقبل نہیں، آپ نے انہیں فرسٹ الیون میں شامل کر لیا ہے اور نوجوان کھلاڑیوں کو آپ نے سیکنڈ الیون میں جگہ دی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل میں پرفارمنس دینے والے کھلاڑیوں کو بھی آپ نے سیکنڈ الیون میں شامل کر لیا ہے، ان کرکٹرز کو پہلی ترجیح دیں جو مستقبل میں پاکستان ٹیم میں شامل ہونے کے امیدوار بن سکتے ہیں۔
عاقب جاوید نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ میں پی ایس ایل اور فرنچائز کا نام کیوں لیتا ہوں، پی ایس ایل اور فرنچائز کا نام اس لیے لینا پڑتا ہے کہ اس نے کھلاڑیوں کو شناخت دی، گزشتہ چار پانچ سالوں میں ڈومیسٹک کرکٹ کی پرفارمنس سے صرف 10 فیصد کھلاڑیوں کو سیلیکٹ کیا گیا ہے، باقی کھلاڑی پی ایس ایل سے اوپر آئے اور انہوں نے نام اور شناخت بنائی اور اب آپ انہیں سیکنڈ الیون میں ڈال رہے ہیں تو کیا میں نشاندہی بھی نہ کروں۔
انہوں نے کہا کہ مصباح الحق کہتے ہیں کہ کوچز کی تعیناتی میں مشاورت نہیں کی گئی، ایسے میں کام کیسے ہو گا، ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کے ساتھ صوبائی کوچز اور سلیکٹرز کیسے ایک پیج پر ہوں گے اور کیسے فیصلے کریں گے، سلیکشن کمیٹی مصباح الحق سے مشاورت کے بغیر بنے گی تو سب ایک پیج پر کیسے ہو سکتے اور مصباح الحق پر تنقید کرنے والے سلیکشن کمیٹی میں ہوں گے تو ہم آہنگی بھی بالکل نہیں آ سکتی،
سابق فاسٹ بولر کا کہنا تھا میں سمجھتا ہوں کہ مصباح الحق کو سلیکٹرز کی وہ ٹیم دینی چاہیے جس پر وہ اعتماد کر سکیں۔
عاقب جاوید نے کہا ایک ہی ٹیم کے ساتھ بڑے بڑے کوچز چپکانے سے بہتر ہے کہ دو دو کوچز اوپر سے نیچے انڈر 16 تک لگائیں اور انہیں نچلی سطح سے سب کھلاڑیوں کا علم ہو اور جس کی جہاں ضرورت ہو وہاں اس کا انتخاب کیا جا سکے۔
ان کا کہنا تھا ٹور ختم ہوتا ہے تو کوئی کوچ آسٹریلیا چلا جاتا ہے تو کوئی انگلینڈ چلا جاتا ہے، وقار یونس ڈومیسٹک کے بولرز کو نہیں دیکھیں گے تو وائٹ اور ریڈ بال میں کھلانے کا فیصلہ کیسے کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب اگر ہائی پرفارمنس سینٹر کی بات کریں تو وہاں بڑے بڑے نام کے کوچز آئے ہیں لیکن ہائی پرفارمنس سینٹر کے کوچز کیا کام کریں گے، کھلاڑی تو اب سب ڈومیسٹک کھیلنے جائیں گے۔