ازالے کیلئے آفت زدہ کراچی میں نقصانات کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟

سندھ کے 20 اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا جن میں میٹروپولیٹن سٹی کراچی بھی شامل ہے۔ ان قدرتی آفات آگہی اور بچاؤ قانون 1958 کے تحت ان اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ 

ماضی میں صوبے میں سیلاب سے سندھ کے مختلف شہر اور دیہی علاقے زیرآب آتے رہے ہیں۔ ایسی صورت حال میں صوبائی حکومت ان آفت زدہ علاقوں کو مختلف رعایتیں دیتی ہے۔ جانی و مالی نقصان پر معاوضہ ، سا ل کا آبیانہ اور عشر معاف کردیا جاتا ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر اے کیوخلیل کہتے ہیں کہ کراچی میں نقصانات کا اندازہ ہی اربوں روپے کا ہے۔ تخمینہ لگایا جائے تو صورت حال واضح ہوجائے گی۔ 

ان کا کہنا تھا کہ شہر میں فارماسیوٹیکل، پیپر، کیمیکل ، انڈسٹریل مٹیریل، سپراسٹورز اور ریٹیل مارکیٹوں سیمت دیگر کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔ 

اے کیو خلیل کا کہنا تھا کہ ملک میں ریٹیل مارکیٹ 152 ملین ڈالرز کی ہے جس کا 30 فیصد حصہ کراچی سے ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ چیمبر اور کامرس سے مدد لے کر صحیح اور شفاف طریقے سے نقصانات کا تخمینہ لگا کر متاثرین کے لیے باقاعدہ ریلیف فنڈ کے اقدامات بھی کرے۔

ماضی میں بڑے نقصانات کا تخمینہ لگایا جاتا رہا ہے جس کی بڑی مثال بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ردعمل میں کی جانے والی تباہی کا بھی تخمینہ لگانا تھا۔

پاکستان میں برسوں بعد بڑا شہر معاشی حب میٹروپولیٹن سٹی کراچی بارشوں اور اربن فلڈ سے بری طرح متاثرہ ہوا ہے اور اسے آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔ شہر کے سروے میں نقصانات کا تخمینہ کرنے کے لیے محکمہ ریلیف اور انتظامی افسران کو کئی زاویوں سے نقصانات کا جائزہ لینا پڑے گا۔

شہروں میں طرز زندگی کو دیکھیں تو عام آدمی بھی ایک معقول رقم کے بغیر اپنی روزمرہ زندگی کے لیے ضرورتیں پوری نہیں کرسکتا۔

بجلی ، گیس، پانی ہر چیز کا بل ادا کرنا پڑتا ہے، سفر کرے تو سواری کا کرایہ ادا کرنا پڑے گا، دیگر اشیاء خریدے کو مختلف اقسام کے ٹیکس کی ادائیگی خود بخود ہوجاتی ہے۔ ملازمت پیشہ افراد انکم پر ٹیکس ادا کرتے ہیں ، ہرکاروباری شخص مختلف ٹیکسز کی ادائیگی کے بعد اپنا کام کرنے کا مجاز ہے۔

کراچی میں نقصانات کاتخمینے کو جانچیں تو :

  • قدرتی آفت اور کرنٹ اور دیگر حادثات میں جانی نقصانات اورزخمی ہونے والوں کی تعداد کی تفصیلات جمع کرنی ہوں گی
  • اربن فلڈ سے کتنے گھروں کو نقصان پہنچا ، ان کی مرمت اور ازسر نو تعمیر کی صورت میں کتنی لاگت آسکتی ہے
  • کتنے گھروں میں پانی سے قیمتی سامان، الیکٹرونک اشیاء، فرنیچر وغیرہ تباہ ہوگیا
  • کتنی گاڑیوں کو پانی میں ڈوب جانے سے نقصان پہنچا جس میں ہرطرح کی گاڑیاں متاثر ہوئی ہیں
  • غریب اور متوسط طبقے کے زیراستعمال ہزاروں کی تعداد میں متاثرہ موٹر سائیکلوں کی تعداد
  • شہر کی کئی مارکیٹیں اور دکانیں زیر آب آئیں اربوں روپے کا سامان پانی کی نذر ہوا ان نقصانات کا تخمینہ لگانا ہوگا
  • شہر میں سبزی منڈیوں کے نقصانات
  • سڑکوں کی تباہی ،پانی بجلی گیس سمیت دیگر انفرااسٹرکچر کی تباہی کا تخمینہ بھی لگایا جائے گا
  • موبائل نیٹ ورک اورٹاور سمیت دیگر انفرا اسٹرکچر کے نقصانات کو بھی جانچنا ہوگا

ان تمام نقصانات کو صحیح تخمینہ لگانے کےبعد وفاقی اور صوبائی حکومت کا اختیار ہے کہ وہ اس تباہی کے نتیجے میں عوام کوقیمتی جانوں کے ضیاع پر معاوضہ ادا کریں۔ بجلی، گیس اور پانی کے بلوں میں مخصوص مدت تک رعایت دی جائے، قرضوں اور ٹیکسز میں چھوٹ دی جاسکتی ہے ۔

شہریوں اور کاروبار ی طبقے کے نقصانات پر انہیں بلاسود آسان اقساط اور شرائط پر قرضے فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ پاکستان کی معاشی شہہ رگ کو مضبوط کرنے سے ملک کی معیشت کو مضبوط کیا جاسکے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔