بلاگ
Time 15 ستمبر ، 2020

وائٹ ہاؤس میں اکلوتا مسلمان

فائل فوٹو

امریکہ میں الیکشن ہوں تو پوری دنیا میں شور مچ جاتا ہے، شاید اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کے فیصلے دنیا پر اثرانداز ہوتے ہیں بلکہ ایک سینئر سفارت کار نے چند ماہ پہلے کہا تھا کہ ’’اقوامِ متحدہ کے فیصلے دراصل واشنگٹن میں ہوتے ہیں‘‘۔ طاقت اور اثراندازی کے باعث امریکی الیکشن پر پوری دنیا کی نگاہیں مرکوز ہوتی ہیں۔

لوگ ماضی کے آئینے کو سامنے رکھ کر ڈیموکریٹس اور ری پبلکن حکومتوں کا جائزہ لیتے ہیں، دنیا بھر کے دانشور ایک ایک ایکشن کو تولتے ہیں، بغور جائزہ لیتے ہیں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں۔امریکہ میں پچھلے الیکشن کی صورتحال عجیب تھی۔

سارے سروے، سارے پول ہلیری کلنٹن کو جتوا رہے تھے، امریکی میڈیا خاتون امیدوار کے گیت گا رہا تھا، دنیا بھر کا میڈیا بھی امریکی میڈیا کی پیروی کر رہا تھا، مہم زوروں پر تھی تو پھر اس خاکسار نے عین الیکشن کے روز بھی پرانا موقف دہراتے ہوئے لکھا کہ ’’آج ٹرمپ جیت جائیں گے‘‘۔

الیکشن ہو گیا، ٹرمپ جیت گیا، مجھ سے پاکستانی اور امریکی میڈیا نے کئی سوالات کئے جن کے سادہ سے جواب یہ تھے۔ ٹرمپ نے توجہ امریکی شہروں سے ہٹ کر دیہی علاقوں پر دی، دیہات کے یہ لوگ کسی سروے، کسی پول میں تو نہ آ سکے مگر ان کا ووٹ ٹرمپ کے لئے کارگر ثابت ہوا۔

ری پبلکن نے اس مرتبہ بھی اپنا صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو نامزد کیا ہے۔ پچھلے دنوں وائٹ ہائوس میں ری پبلکنز کا کنونشن ہوا، اس کنونشن کا مقصد اگلے صدارتی امیدوار کی نامزدگی تھا۔ بڑے بڑے سینئر اور بوڑھے ری پبلکن واشنگٹن میں اکٹھے ہوئے، انہوں نے بڑی تقریریں کیں، کچھ نے جوشیلی اور کچھ نے دھیمی تقریریں کیں اور بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی امیدوار نامزد کر دیا گیا، ٹرمپ اب دوسری مدت کیلئے الیکشن لڑیں گے۔

اس کنونشن میں صرف ایک مسلمان شریک تھا، دنیا بھر میں 57اسلامی ملک ہیں ان ملکوں کے کئی باشندے امریکی شہری بن چکے ہیں وہ امریکہ میں باقاعدہ ووٹر ہیں، وہ الیکشن مہم کا حصہ بنتے ہیں، ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنی ہمدردیاں جگاتے ہیں۔

امریکی مسلمانوں کی اکثریت ڈیموکریٹس کی طرف جھکی ہوئی ہے مگر واشنگٹن کنونشن میں شریک اکلوتا مسلمان یہ کوشش کر رہا ہے کہ مسلمانوں کی ہمدردیوں کا رخ ڈونلڈٹرمپ کی طرف موڑا جائے۔

یہ اکلوتا مسلمان کوئی اور نہیں اپنا ساجد تارڑ ہے، جو اپنی جسامت اور حال حلیے سے پکا امریکی لگتا ہے۔ ری پبلکن کنونشن سے چند روز قبل امریکی صدر اور پارٹی کی طرف سے ساجد تارڑ کو ’’مسلم وائسز فار ٹرمپ‘‘ کا سربراہ بنایا گیا، سالانہ کنونشن سے ایک روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے پورے خاندان نے مسلمان رہنما ساجد تارڑ کو ٹرمپ انٹر نیشنل میں مدعو کیا، اس کیساتھ ملاقات کی، امریکی مسلمانوں کے خیالات پوچھے امریکی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی صدارتی امیدوار کی الیکشن مہم کے لئے مسلمان کمیونٹی کا الگ سے نمائندہ بنایا گیا ہے۔

ساجد تارڑ اس الیکشن میں زیادہ پُرامید ہے، اس نے تو پچھلے الیکشن میں بھی ہمت نہیں ہاری تھی جب امریکی میڈیا ٹرمپ کے خلاف تھا، مسلمانوں کے اندر بھی فضا ٹرمپ کے خلاف تھی۔ ان دنوں ٹرمپ منڈی بہائوالدین کے اس جاٹ پر بڑا خوش تھا اور اسے ہر میٹنگ میں ’’ساجید‘‘ کہتا تھا۔ پچھلی مرتبہ ٹرمپ کا مقابلہ ہیلری سے تھا، وہ خاتون تھی، زیادہ پاپولر بھی تھی پھر اس کا شوہر بل کلنٹن دومرتبہ صدارتی مدت پوری کر چکا تھا۔

اس مرتبہ ساجد تارڑ زیادہ خوش ہے، اس کے نزدیک جوبائیڈن کمزور امیدوار ہے، اس کا خیال ہے کہ وہ مسلمان ووٹرز میں ٹرمپ کیلئے جگہ بنانے میں کامیاب رہے گا، اس مرتبہ اسے شاہد رضا رانجھا، قیصر بھٹہ، عمران بٹ، غزالہ حبیب، سلیم مغل، عارفہ خالد پرویز اور عمران بٹ سمیت کئی مسلمانوں کا ساتھ حاصل ہے، ساجد تارڑ نے ٹرمپ کیلئے خاص مہم ترتیب دی ہے۔

نومبر میں ہونے والے امریکی الیکشن پر تبصرے اور قیاس آرائیاں جاری ہیں مگر اس مرتبہ ری پبلکن کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے مثلاً وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ٹرمپ نے دنیا کو جنگوں میں دھکیلنے سے گریز کیا، اس نے کوئی نئی جنگ شروع نہیں کی بلکہ دنیا میں امن کی بحالی کیلئے کوششیں کیں۔

اس نے افغانستان میں امن کے قیام کے لئے مذاکرات شروع کروائے، اس نے مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے پوری کوشش کی، اس نے امریکی معیشت کی بہتری کیلئے کام کیا ورنہ باراک اوبامہ تو امریکہ کو پچاس سال پیچھے لے گیا تھا، ٹرمپ نے کورونا کے دور میں امریکیوں کا پورا خیال کیا۔

باقی رہا امریکی میڈیا تو وہ تو ٹرمپ کے عہد اقتدار میں بھی ٹرمپ کے خلاف بہت کچھ کہتا رہا بلکہ میڈیا سے ٹرمپ کے کبھی بھی مثالی مراسم نہیں رہے۔ یہ الیکشن ٹرمپ کے لئے زیادہ مشکل نہیں کیونکہ وہ مزاجاً امریکیوں کے زیادہ قریب ہے۔ امریکیوں کو اصل خطرہ یہ ہے کہ کہیں روس اور چین الیکشن نہ چرالیں، اس مشینی الیکشن پر اقبالؒ یاد آ گئے ہیں کہ

ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔