16 ستمبر ، 2020
بروقت رپورٹنگ کی وجہ سے سیالکوٹ موٹروے پر رونما ہونے والا درندگی کا واقعہ سیاست اور صحافت کا موضوع بن گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ درندگی کے ایسے واقعات روز کا معمول بن گئے ہیں۔
ندیم فاروق پراچہ کی تحقیق کے مطابق صرف پنجاب صوبے میں سال 2019کے دوران ریپ کے 3881، بچوں کے ساتھ زیادتی کے 1359، خواتین کے خلاف تشدد کے 1785اور خواتین کے اغوا کے 12600کیسز رپورٹ ہوئے۔
واضح رہے کہ یہ صرف وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے حالانکہ اس طرح کے اکثر کیسز عموماً عمر بھر کے داغ کی وجہ سے متاثرہ فریق رپورٹ ہی نہیں کرتے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ قوم اخلاقی زوال اور پستی کی کن اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہے۔
ہم لاکھ بھی اسے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام دیں اور ہم زندہ قوم ہیں کے نعرے لگائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ملک عام اور شریف انسان کے لئے جہنم بن گیا ہے جبکہ یہ زندہ قوم نہیں بلکہ مردہ ضمیروں کے حامل انسان نما حیوانوں کا ہجوم ہے۔ گزشتہ روز عزیز دوست اور عظیم شاعر وصی شاہ نے موجودہ حالات کی عکاس تازہ شعر بذریعہ واٹس ایپ بھجوایا ۔ جو کچھ یوں تھا کہ:
شہر ہمارے جنگل ہونے والے ہیں
شاید ہم سب پاگل ہونے والے ہیں
میں نے ان سے بصد احترام عرض کیا کہ شاہ جی! آپ نے ”ہونے والے ہیں“ کے الفاظ استعمال کئے ہیں حالانکہ حقیقت میں ہمارے شہر جنگل بن چکے ہیں اور ہم سب پاگل ہو گئے ہیں۔ آپ نے صرف شہروں کی بات کی ہے جبکہ دیہات کا معاملہ شہروں سے بھی بدتر ہے۔ تھوڑی دیر بعد اخبار اٹھاکر پڑھنے لگا اور محترم حسن نثار صاحب مجھ سے بھی دو قدم آگے تھے۔
اپنے کالم کا آغاز انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ کیا تھا کہ ”نہ یہ جنگل ہے، نہ یہ جانور ہیں کیونکہ نہ جنگلوں میں ایسا ہوتا ہے، نہ جانوروں میں یہ ’’وبا‘‘ پائی جاتی ہے کیونکہ وہاں ریپ نہیں رضا مندی ہوتی ہے اور بلوغت کا انتظار کیا جاتا ہے۔
جنگلوں اور جانوروں کی توہین مت کرو کہ یہ معاشرہ انہیں بہت پیچھے چھوڑ آیا اور تیزی سے عذابِ الٰہی کی طرف دوڑ رہا ہے“ لیکن یہ ہمارے معاشرتی زوال اور ریاستی ڈھانچے کے اضمحلال کا صرف ایک رخ ہے۔ اسی رفتار سے چوری، ڈاکے، رہزنی اور حیوانیت کے دیگر مظاہر بھی بڑھ گئے ہیں۔
ایک اور رخ یہ ہے کہ پیسے اور طاقت کا حصول ہی ہر شہری کی زندگی کا مقصد، قانون شکنی فخر یہ روش اور بدتمیزی فیشن بن گیا ہے۔ یہ تووہ رخ ہیں جو سامنے آگئے ہیں لیکن ہمیں کچھ ایسے خطرات کا سامنا ہے جو ابھی نظر نہیں آرہے۔ ایک تو نسلی، علاقائی اور طبقاتی بنیادوں پر لاوے پک رہے ہیں جو کسی بھی وقت کسی بھی شکل میں پھٹ سکتے ہیں۔
دوسرا فرقہ واریت کی آگ خاموش مگر بڑی منظم طریقے سے بھڑکائی جارہی ہے اور خدانخواستہ اس کے شعلے کسی بھی وقت اس ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں کیوں ہورہا ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے، جہاں نماز، روزے، حج اور عمرے کی شرح سب سے زیادہ ہے، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں مذہبی جماعتیں سرگرم عمل ہیں، جہاں تبلیغ کا کام دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہو رہا ہے، جہاں انفاق فی سبیل اللہ کا رجحان بھی دیگر اسلامی ممالک کی بنسبت زیادہ ہے، جس کی فوج دنیا کی بڑی اور منظم ترین فوجوں میں شمار ہوتی ہے اور جہاں کی خفیہ ایجنسیاں دنیا کی طاقتور ترین ایجنسیاں سمجھی جاتی ہیں؟ اپنے طور پر ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کی جو کوشش کی تودرج ذیل وجوہات ذہن میں آئیں۔
1۔یہ قوم حقیقی سیاسی قیادت سے محروم کردی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے جج جسٹس باقر کے الفاظ میں اسے سیاسی بونوں کے سپرد کردیا گیا ہے۔ کردار والی قیادت ہی قوم کو منظم کر سکتی ہے لیکن یہاں کٹھ پتلیوں اور ضمیرفروشوں کو قوم کے سروں پر مسلط کیا جاتا ہے جو قوم کے لئے رول ماڈل بن سکتے ہیں، ان کے رہنما بن سکتے ہیں اور نہ حقیقی معنوں میں ان کے جذبات کی ترجمانی کر سکتے ہیں۔
2۔ہمارے سول اداروں یعنی پولیس، عدلیہ اور بیوروکریسی میں پہلے سے بے شمار سقم موجود تھے لیکن آج کل انہیں بالکل مفلوج کردیا گیا ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں سے ان کا خوف بھی ختم ہوگیاہے اور کسی ادارے سے انصاف کی توقع نہیں کی جاتی۔
3۔اس ملک میں کچھ لوگ اور کچھ ادارے بلیک میل ہورہے ہیں یا غیرضروری احتساب کی زد میں ہیں جبکہ کچھ لوگ اور کچھ ادارے قانون اور احتساب سے مبرا ہیں۔ چنانچہ ایک طبقہ قانون اور احتساب سے مبرا طبقات کی غلامی کررہا ہے اور باقی قوم گھٹن کی شکار ہے یا پھر بغاوت کا راستہ اپنارہی ہے۔
4۔طاقت اور دولت کی تقسیم انتہائی غیرمنصفانہ ہو گئی ہے۔ ایک طبقہ حد سے زیادہ طاقتور اور باقی طبقات غلاموں کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔ عام شہری مکمل بےبسی اور بےاختیاری کا شکار ہیں۔ اسی طرح دولت چند ہاتھوں میں حد سے زیادہ منتقل ہوگئی ہے جبکہ اکثریتی لوگ بےانتہا غربت کا شکار ہیں۔ ماضی میں چونکہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نہیں تھا اس لئے عام شہری طاقت اور دولت کے ان مظاہروں کو براہ راست نہیں دیکھ رہا تھا۔
مثلا ماضی میں ہمارے دیہات میں ایک شہری صرف اپنے علاقے کے چوہدری یا تھانیدار کی طاقت اور دولت کو دیکھ رہا تھا لیکن اس وقت وہ ملک بھر میں طاقتوروں کی طاقت کے بےدریغ استعمال کا اور دولت مندوں کی دولت کے ریل پیل کا نظارہ کررہا ہے اور پھر جب اپنی بےبسی یا غربت کو دیکھتا ہے تو اس کی فرسٹریشن حد سے بڑھ جاتی ہے۔
غرض اس ملک میں ہر شہری، ہر طبقہ، ہر ادارہ، ہر جماعت اور ہر گروہ اپنی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا ماحول بن گیا ہے۔ ماضی قریب میں ہم نے اس ملک میں ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں آئین کا ریپ ہوتے دیکھا۔
اسی طرح ججوں کے ہاتھوں قانون کا ریپ ہوتے دیکھا۔ اسی طرح ہم نے محتسب اعلیٰ کے ہاتھوں احتساب کا ریپ ہوتے دیکھا، انصاف کے نام لیوائوں کے ہاتھوں انصاف کا ریپ ہوتا دیکھ رہے ہیں، خبر دینے اور خبر لینے کے ذریعے یعنی میڈیا کو خود اس کو چلانے والوں کے ہاتھوں ریپ ہوتے دیکھا اورجمہوریت کے علمبرداروں کے ہاتھوں جمہوریت کا ریپ ہوتے دیکھا۔ ان حالات میں اس ملک کے جاہل اور بھوکے شہری درندے بن کر ریپ کرنے لگ جائیں تو حیرت کس بات کی؟
اس ملک کو خانہ جنگی اور انارکی سے بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ جمہوریت بحال کی جائے۔ ہر ادارہ اور ہر فرد اپنے اپنے دائرہ اختیار میں کام کرے۔ قانون کا سب افراد اور سب اداروں پر یکساں اطلاق ہو اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا نظام ہو۔ جس ملک میں جاوید اقبال محتسب اعلیٰ، شیخ عمر حکمرانوں کا فیورٹ پولیس افسر اور شہباز گل ’’امیرالمومنین‘‘ کا ترجمان ہو، اس ملک میں شہریوں سے شائستگی اور تہذیب کی توقع کرنا اپنے آپ اور قوم کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔