لاپتہ افراد اور بڑھتے جرائم پر شہزاد اکبر، سیکرٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد طلب

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں لاپتہ افراد اورجرائم کے بڑھتے واقعات پر وزیراعظم کے مشیر داخلہ مرزا شہزاد اکبر، سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو 21 ستمبر کو طلب کر لیا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکیورٹیر اینڈ ایکسچینچ کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل کے لاپتہ ہونے کے کیس کی سماعت کی۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے عدالتی حکم کے دوسرے دن ہی معاملے کا نوٹس لے لیا تھا، ساجد گوندل بازیاب ہو کر واپس آچکے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ساجد گوندل کو ہوا کیا تھا؟ کیا لاپتہ شہری واپس آگیا تو معاملہ ختم ہو گیا ہے؟سیکرٹری داخلہ کو خود عدالت آکر بتانا چاہیے تھا کہ انہوں نے مسنگ پرسن کی بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے؟

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزیراعظم کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے معاملے کا نوٹس لیا، وزیراعظم کے نوٹس میں باقی معاملات بھی لانے چاہئیں، آئی جی پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ شاکنگ ہے، وزیراعظم کو پتہ چلنا چاہیے کہ عام شہریوں کےساتھ ہو کیا رہا ہے؟ لوگوں کا تھانہ سسٹم پر اعتبار ہی نہیں رہا۔

چیف جسٹس نے وزارت داخلہ کے نمائندے کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ کو معلوم ہے ایف 8 اور ایف 10 میں لوگوں کے گھروں میں ڈاکے پڑے ہیں، آپ کی منسٹری کے کوئی ایڈوائزر ہیں تو وہ وزیراعظم کو بتائیں کہ اسلام آباد میں کیا ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ  اس حوالے سے وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ کو مکمل ریکارڈ دیں جو پیش ہو کر اس عدالت کی معاونت کریں۔

جسٹس اطہر من اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ریڈ زون میں جو جھگڑا ہوا اس میں اگرعام شہری ہوتے تو کیا پولیس انہیں جانے دیتی؟ وزیراعظم کو پتہ چلنا چاہیے عام شہریوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

خیال رہے کہ 3 ستمبر کو سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جوائنٹ ڈائریکٹر ساجد گوندل وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے لاپتا ہوگئے تھے۔ ان کی گاڑی زرعی تحقیقاتی مرکز شہزاد ٹاؤن کے قریب کھڑی ملی تھی۔

8 ستمبر کو سوشل میڈیا پر جاری بیان میں ساجد گوندل نے کہا تھا کہ میں واپس آ گیا ہوں اور محفوظ ہوں۔ 

مزید خبریں :