Time 18 ستمبر ، 2020
بلاگ

فرسودہ قوانین کا آختہ کیا جائے

فوٹو: فائل 

موٹروے پر خاتون کی آبروریزی کاسانحہ ہر گلی کوچے میں گفتگو کا موضوع بنا رہا، ملک پر صدمے کی کیفیت طاری رہی، دکھ بھی تھا، تشویش بھی تھی۔ اب کیا ہوگا، بہو بیٹیوں کی حفاظت کون کرے گا اور کیسے؟ کیوں کہ ملک میں جو نظام نافذ ہے وہ پہلے بھی مشکوک تھا، اب اور زیادہ بے اعتبار ہوگیا ہے۔میں زیادہ لمبی تمہید باندھے بغیربات کو یہیں سے آگے بڑھاتا ہوں۔

یہ سنہ انیس سو ترانوے کی بات ہے، مشرقی لندن کے ایک بس اسٹاپ پر بس کا انتظار کرتے ہوئے ایک سیاہ فام لڑکے اسٹیون لارنس کو پانچ سفید فام لڑکوں نے پہلے چھیڑا، پھر ستایا، پھر فرش پر گرایا اور ایک سفید فام لڑکے نے اس کے سینے میں چھرا گھونپ دیا۔ 

اسٹیون اٹھ کر کچھ دور تک دوڑا اور پھر چکرا کر گرگیا، خو ن اتنا زیادہ بہا کہ اس نے وہیں دم توڑدیا، لندن میں چھرا گھونپنے کی ایسی وارداتیں اکثر ہوتی رہتی ہیں لیکن اس بار لوگوں نے اسے قومی اہمیت کا واقعہ قرار دیا اور اخباروں نے اس خبر کا تعاقب شروع کیا۔ 

پتہ چلا کہ پولیس معاملے کو کچرے دان میں ڈالنے کے جتن کر رہی ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ دو لڑکوں کے خلاف مقدمہ قائم ہی نہیں ہوسکا کیونکہ ان کے خلاف کوئی شہادت نہیں ملی، انکوائری بٹھائی گئی۔

اس نے بھی یہی کہا کہ پولیس جانب دار ہے اور نسلی تعصب کا شکار ہے، اس دوران جرم کی چھان بین کے سائنسی طریقے پروان چڑھ رہے تھے اور جرم کا سراغ لگانے کا فن ترقی کر رہا تھا، بس پھر تو انصاف کے نظام نے ایک نیا منظر دیکھا۔ 

سائنسی کھوجیوں نے بری ہونے والے ایک لڑکے کے کوٹ پر اسٹیون کے خون کا سوئی کی نوک کے برابر ایک دھبّا ڈھونڈ نکالا اور اس سے بھی بڑھ کر اسی کوٹ پر اسٹیون کے سر کا ایک بال بھی مل گیا۔ 

دونوں شہادتوں کا ڈی این اے ٹیسٹ ہو ا اور جس مقدمے کی کارروائی نمٹا دی گئی تھی، اس میں جان پڑگئی۔ اب مسئلہ برطانوی قانون کا تھا جس میں لکھا ہے کہ ایک ہی جرم کا مقدمہ دو مرتبہ نہیں چل سکتا۔ یعنی جو معاملہ داخل دفتر ہو اسے بھلا ہی دیا جائے۔

اس مرحلے پر حکومت نے حیرت انگیز کام کر دکھایااور تصور کیجئے، اس نے قانون بدل دیا۔اس دوران اخبارات بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ ایک اخبار نے بہت بڑی سرخی لگائی: قاتل۔ اور لکھا کہ ہم پانچوں لڑکوں کو قاتل قرار دیتے ہیں، ہمت ہو تو ہم پر توہین کا مقدمہ دائر کرکے دکھاؤ۔ وہ کسی نے دائر نہیں کیا اور پانچوں لڑکوں کو قاتل قرار دے کر سزا دے دی گئی۔

قانون کا بدلا جانا دیکھنے میں معمولی سا اقدام ہے لیکن یوں نہیں ہے، تاریخ میں ایسے واقعات کم ہی ہوئے ہیں، ایک بڑ ے واقعے کا تعلق انیسویں صدی کے پہلے نصف کا ہے اور اپنے اندر دل چسپ کہانی بھی لئے ہوئے ہے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان پر انگریزوں کی گرفت مضبوط ہوتی جارہی تھی ۔ ان دنوں ملک میں اورنگ زیب کے زمانے کی قاضی کی عدالتیں موجود تھیں اور انگریزی نظام والی مجسٹریٹ کی عدالتیں بھی کام کر رہی تھیں، یہ وہ دن تھے جب ملک میں یہاں سے وہاں تک ٹھگوں نے اندھیر گردی مچائی ہوئی تھی، خلقت کچی پکی سڑکوں پر کبھی پیدل اور کہیں بیل گاڑیوں پر سفر کرتی تھی، راہ میں سرگرم ٹھگ گھات لگا کر بیٹھے ہوتے تھے اور مال دار نظر آنے والے راہ گیروں کے گلے میں ایسا پھندا ڈالتے تھے کہ وہ بچارا وہیں دم توڑ دیتا تھا، پھر اسے اچھی طرح لوٹتے تھے۔

مگر پھر یہ ہوتا تھا کہ ایسے قاتلوں کو عدالت میں پیش کیا جاتا توعدالت کہتی کہ شہادتیں لاؤ، ثبوت پیش کرو، آلہ قتل کہاں ہے، خون کدھر ہے، قاضی حضرات کہتے تھے کہ یہ کیسا قتل ہے جس میں خون ہی نہیں بہتا، انگریز مجسٹریٹ اپنی ولایتی آن بان دکھاتے ہوئے قتل کا ٹھوس ثبوت طلب کرتے تھے جب کہ اکثر اوقات مقتول کی لاش تک نداردہوتی تھی، وہ بھی ملزم کو سزا دینے سے انکاری تھے۔ 

جب دونوں عدالتوں کا یہی رویہ رہا اور ظالم اور بے رحم قاتل مزے سے آزاد ہوتے رہے تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے وہ کام کیا جس کا ولایت میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،  کمپنی بہادر نے قانون بدل دیا اور ایک نیا قانون سختی سے نافذ کیا گیا۔ 

قانون سیدھے سادے لفظوں میں یہ تھا کہ ثبوت ہو یا نہ ہوا، قتل کے ملزم ٹھگ کو قاتل مانا جائے، بس اس کے بعد ہندوستان کی شکل ہی بدل گئی۔شہر شہر اور نگر نگر پھانسی گھاٹ بن گئے اور خود انگریز حکام نے ٹھگوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر یوں لٹکانا شروع کیا کہ بیک وقت آٹھ آٹھ دس دس کی ٹانگیں جھولتی نظر آتی تھیں۔ 

اعلیٰ ذات کے مجرم اصرار کرتے تھے کہ انہیں نیچ ذات کے جلادوں کے ہاتھوں مرنا منظور نہیں۔وہ اپنے گلے میں پھندا خود ہی ڈالتے تھے اور یوں خوشی خوشی مرجاتے تھے۔نتیجہ کیا ہوا؟ ایک دن ایسا بھی آیا کہ پورے ملک میں ٹھگوں کے ہاتھوں ہلاکت کی ایک بھی رپورٹ نہیں آئی۔

اس کارروائی میں کیسے کیسے نامی ٹھگ جہنم واصل ہوئے ، ان کے نام آج تک سننے میں آتے ہیں، اعلیٰ ذات کے ہندو ٹھگ فرنگیاکے نام سے لوگ کانپتے تھے۔ اُسی دور میں دوسرا مشہور ٹھگ بھی نجیب الطرفین سید تھا جو اپنا نام بڑے فخر سے سید امیر علی بتا تا تھا اور لوگ اسے میر صاحب کے نام سے پکارتے تھے۔فرسودہ قانون ان قاتلوں کو پوری پوری چھوٹ دے رہا تھا۔ آخر وہ کارروائی ہوئی جو کاش آج بھی ہو جائے۔قانون بدلا گیا۔ اپنے مقتولوں کی تعداد پر نا ز کرنے والے مجرموں کا صفایا ہوا اور ملک کی پگ ڈنڈیوںاور سڑکوں پر سکھ چین کی بنسی بجنے لگی مگر میں اپنی بات دہراؤں گا، قانون بدلا گیا تو جرائم کی سیاہ رات کا خاتمہ ہوا۔

اسے میرا استدلال کہئے یا کچھ اور کہئے، ہم جن فرسودہ قوانین کی گٹھڑی سینے سے لگائے جی رہے ہیں اور جن لوگوں کے وجود سے معاشرے کو پاک کرنے کی ضرورت ہے وہ آزادی کے مزے لوٹ رہے ہیں،اب وقت آگیا ہے کہ ان گھسے پٹے ،بے سرو پا قوانین کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو ہم آج کے مجرموں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔خواتین اور بچیوں کو اپنے بے رحمانہ وجود تلے روندنے والے سفاک قاتلوں کا آختہ کرکے انہیں یوں چھوڑ دیا جائے کہ وہ زندگی بھر لوگوں کو اپنا گھاؤ دکھاتے پھریں۔یعنی فرسودہ قوانین کو یوں کچرے میں پھینکا جائے جیسے جلا د صفت مجرم ننھی بچیوں کا سر پتھر سے پھوڑ کر ان کی لاشیں کچرے کے ڈھیر پر پھینکتے ہیں۔

آپ اگر یہ کام نہیں کر سکتے تو جو کر رہے ہیں اسے چھوڑیں اورکوئی اور کام کریں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔