احسان مانی اور وسیم خان کو پزیرائی کیوں نہیں مل رہی؟

پاکستان کرکٹ ٹیم ایکشن میں ہو، یا معاملہ آف سیزن کا ہو، پاکستان کرکٹ یا کرکٹرز خبروں کی زینت نہ بنیں ، ایسا کم ہی ہوتا ہے۔ اس تناظر میں بورڈ کا میڈیا ڈپارٹمنٹ ہمیشہ ہی بورڈ کے اعلی حکام کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے، جس پر اس ساری صورت حال میں بورڈ کے دفاع کی ذمہ داری ایک عام بات ہے۔

 البتہ اس حوالے سے بورڈ کا یہ محکمہ اگر یہ کہا جائے، بناء کسی لینے دینے کے ہمیشہ تنقید کی زد میں رہا ہے، تو کسی طور غلط نہ ہوگا۔ تاہم احسان مانی کے بطور چیئرمین 2018ء میں آنے کے بعد آئی سی سی کے سابق میڈیا سربراہ سمیع الحسن برنی کی تعیناتی سے یہ تاثر ابھرا کہ اس بار معاملات ماضی سے قدرے مختلف ہوں گے، کیونکہ سمیع برنی کی پی سی بی میڈیا میں یہ دوسری اننگز ہے۔

دوسرا وہ خود ماضی میں بطور صحافی پاکستان کرکٹ میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور بیشتر صحافی ایسے ہیں ، جو ان کے ساتھ نا صرف کام کرچکے ہیں بلکہ آئی سی سی کی 13سال کی رفاقت میں سمیع الحسن برنی نے میڈیا کے ساتھ ہی تو ذمہ داریاں نبھائیں ہیں ، تو یہ سب کچھ کیسے مشکل ہوگا؟ 

ڈائریکٹر میڈیا کی حیثیت سے بورڈ میں ایک بھاری معاوضے پر قدم رکھنے والے سمیع الحسن برنی نے میڈیا کے ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کے معاملات بھی سنبھالے، جس پر بورڈ کے اندر تحفظات سامنے آئے کہ ڈیجیٹل سطح پر بورڈ کمائی کر رہا ہے تو کیا سمیع الحسن برنی اس حوالے سے بورڈ کے خزانے کے لیے سود مند ثابت ہوں گے کیونکہ ماضی میں ڈیجیٹل معاملات مارکیٹنگ ڈپارٹمنٹ دیکھ رہا تھا۔ 

 دوسری طرف میڈیا کے حلقوں میں ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پر بورڈ کے خاصے متحرک ہونے کے بعد یہ چہ مگوئیاں بھی سامنے آئیں کہ اگر بورڈ ہی کھلاڑیوں کے انٹرویوز کرے گا یا ان کے کارناموں پر ویڈیوز بنائے گا، تو ٹی وی چینلز پر رپورٹرز کیا کریں گے؟ 

اس بارے میں سمیع الحسن برنی کا کہنا ہے کہ “ ہم اپنا کام کر رہے ہیں ، ہم اپنے متعلقہ شعبوں کی ضروریات اپنے انداز میں پوری کر رہے ہیں ، ہم تفصیلی ای میل کے ذریعے معلومات کے دائر ے کو وسیع کر رہے ہیں ، ہم کسی کو نہیں کہتے کہ ہماری چیزیں چھپائیں یا چلائیں ، تو ہم پر اس بارے میں سوال اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن یہ کہنا کہ ہماری چیزیں چلاؤ اور چھپاؤ ، یہ کہنا کسی طور مناسب نہیں ہوگا”۔ 

دوسری جانب سمیع الحسن برنی کے آنے کے بعد الیکٹرانک میڈیا کو سب سے بڑی مشکل اور جس رکاوٹ کا سامنا تھا، وہ کیمرا مینوں کی محدود نقل و حرکت ہے، جس پر سمیع الحسن برنی کو خاصی تنقید کا سامنا رہا اور ہے، تاہم وہ اس حوالے سے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ 

پاکستان میں کرکٹ کا کھیل بے حد مقبول ہے اور ایک عام تاثر یہی ہے کہ پاکستان میں چیئرمین پی سی بی کی مسند وزیر اعظم کے بعد سب سے زیادہ توجہ کا مرکز سمجھی جاتی ہے۔ماضی میں شہریار خان، چوہدری ذکاء اشرف، ڈاکٹر نسیم اشرف، لیفٹیننٹ جنرل (ر) توقیر ضیاء اور نجم عزیز سیٹھی چئیرمین پی سی بی رہے، تاہم میڈیا ڈپارٹمنٹ سے ہٹ کر ان سربراہان نے براہ راست اپنی دستیابی ظاہر کی۔

البتہ احسان مانی جو آئی سی سی کے صدر رہے، انھیں اس حوالے سے سابق چیئرمین پی سی بی کے برعکس ملکی میڈیا میں وہ پذیرائی اور توجہ نہ مل سکی، اس کی ایک وجہ پی سی بی کا موجودہ میڈیا ڈپارٹمنٹ بھی ہے، جو چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو وسیم خان کے لیے میڈیا کے حوالے سے زیادہ دوستانہ نہ ہونے کے سبب دو سال گزرنے کے باوجود ان اعلی افسران کے لیے ناہمواریاں ختم نہ کرسکا۔ 

اس کی ایک وجہ ملکی میڈیا کے برعکس غیر ملکی میڈیا میں چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو کے بیانات اور انٹروو زبھی کہے جاسکتے ہیں، جس نے دونوں اشخاص کی شخصیت کو بطور کرکٹ ایڈمنسٹریٹر اپنے ہی ملک میں حیران کن بنادیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سمیع الحسن برنی پاکستان میں صحافت کے شعبے سے وابستہ رہے، یہاں کے اتار چڑھاؤ اور خبر دینے کے انداز سے وہ ناواقف ہر گز نہیں ، البتہ ان کی موجودگی کے باوجود بورڈ جس محاذ پر سب سے زیادہ مضبوط دکھائی دینا چاہیے تھا، یعنی میڈیا وہیں ، اس کے لیے سب سے زیادہ چیلنجر ہیں۔ اس صورتحال کا ذمہ دار سمیع الحسن برنی کو  سمجھا جائے تو کسی صورت غلط نہ ہو گا۔  

یہ بات درست ہے کہ سمیع الحسن برنی کے آنے کے بعد غیر ملکی دوروں پر رضا راشد کچلو کو مستقل بنیادوں پر ذمہ داریاں دی گئیں تاہم بورڈ پر تنقید اور چبھتے سوالات کرنے والوں کے ساتھ ڈائریکٹر میڈیا کی ناراضی اور جواب نہ دینے کی پالیسی سمجھ سے باہر ہے۔ سمیع الحسن برنی کو چاہیے کہ بورڈ پر ہونے والی تنقید کا مثبت جواب دیں، یا پھر غیر مصدقہ خبر کے حوالے سے متعلقہ صحافی یا پھر ادارے کو بورڈ کا مؤقف بھیجیں کیونکہ قطع تعلق کسی مسئلے کا حل نہیں۔  

سمیع الحسن برنی کا کو ویڈ 19کے دوران آفیشلز اور کھلاڑیوں کی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ رابطے کی مہم ایک اچھا اقدام تھا، لیکن اگر وہ مستقبل میں اپنے کام اور صحافیوں کے کام کی رفتار اور حالات کی سمت کا تعین کرنے کے بجائے، بورڈ کی ڈھال بنیں تو بورڈ کے مہنگے ترین میڈیا ڈپارٹمنٹ کو غیر ضروری تنقید سے بچا سکتے ہیں۔

مزید خبریں :