25 ستمبر ، 2020
وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اٹھادیا۔
اقوام متحدہ کے 75 ویں جنرل اسمبلی اجلاس سے تقریباً 27 منٹ پر محیط اپنے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس، خطے میں اسلحے کی دوڑ، گستاخانہ خاکوں کی اشاعت، کشمیر میں بھارتی مظالم، فلسطین اسرائیل تنازع، ماحولیات اور اقوام متحدہ و سلامتی کونسل میں بڑے پیمانے پر اصلاحات جیسے اہم معاملات پر گفتگو کی۔
وزیراعظم کا ریکارڈ شدہ خطاب نشر کرنے سے قبل جنرل اسمبلی میں موجود اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے ابتدائیہ کلمات ادا کیے۔
’ہماری خارجہ پالیسی میں علاقائی امن و سلامتی کو اولیت حاصل ہے‘
اپنے خطاب میں سب سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں اپنی حکومت قائم ہونے کے بعد بنیادی اصلاحات کے حوالے سے گفتگو کی اور بتایا کہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد نئے پاکستان کی بنیاد ریاست مدینہ کے اصولوں پر رکھی۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ریاست مدینہ کی طرز کی حکومت قائم کرنے کیلئے ہمیں امن و استحکام کی ضرورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی میں علاقائی امن و سلامتی کو اولیت حاصل ہے اور ہمارا مؤقف ہے کہ تمام مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہونے چاہئیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی 75 ویں سالگرہ انتہائی اہم سنگ میل ہے، ہم اس اہم موقع کو امن، استحکام اور پر امن ہمسائیگی کے مقصد کو حاصل کرنے کیلئے استعمال کرسکتے ہیں کیوں کہ اقوام متحدہ ہی واحد ادارہ ہے جو ہماری مدد کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ہمیں اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا جو وعدے بطور اقوام متحدہ ہم نے اقوام سے کیے تھے وہ پورے کرسکے؟ آج طاقت کے یکطرفہ استعمال سے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبایا جارہا ہے، اقوام کی خود مختاری پر حملے کیے جارہے ہیں، داخلی معاملات میں مداخلت کی جارہی ہے اور منظم طریقے سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہورہی ہے۔
’جب تک ہر شخص محفوظ نہیں تو کوئی شخص محفوظ نہیں‘
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بین الاقوامی معاہدوں کو پس پشت ڈالا جارہا ہے، سپر پاور بننے کے خواہاں ممالک کے درمیان اسلحہ کی نئی دوڑ شروع ہوچکی ہے، تنازعات شدت اختیار کررہے ہیں، فوجی مداخلت اور غیر قانونی انضمام کے ذریعے لوگوں کے حق خود ارادیت کو دبایا جارہا ہے۔
انہوں نے نوم چومسکی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کہا ہے کہ انسانیت کو اس وقت پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں اور ایسا اس لیے ہے کہ جوہری تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ماحولیاتی تبدیلی عروج پر ہے اور آمرانہ حکومتیں اقتدار میں آرہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ مذکورہ خطرات سے نمٹنے کیلئے ہم سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، بین الاقوامی تعلقات میں باہمی تعاون کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہونی چاہیے جو کہ بین الاقوامی قوانین سے مطابقت رکھتا ہو۔
وزیراعظم عمران خان نے کورونا وائرس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس نے دنیا کو متحدہ ہونے کا پیغام دیا ہے، ہمیں پیغام ملتا ہے کہ دنیا میں جب تک ہر شخص محفوظ نہیں تو کوئی شخص محفوظ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کورونا نے دنیا بھر میں غریب اور نادار افراد کو سخت متاثر کیا، پاکستان نےاسمارٹ لاک ڈاؤن کی پالیسی اپنائی، پاکستان میں ہم نےسخت لاک ڈاؤن نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم کثیر الجہتی اشتراک سےمسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں، جب سے ہماری حکومت آئی ہم نے عوام کی بہتری کیلئے کوششیں کیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران 8ارب ڈالر سے صحت سہولیات اور غریب افرا دکی مدد کی گئی، ہم نے 3 سال میں 10ملین درخت لگانےکا منصوبہ بنایاہے، حکومت کی تمام پالیسیوں کامقصد شہریوں کےمعیار زندگی میں اضافہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نہ صرف کوروناسےنمٹنے میں کامیاب ہوئےبلکہ معیشت کو بھی استحکام دیا، ترقی پذیر ممالک کوقرضوں کی ادائیگی میں مہلت سے ریلیف ملا۔
’امیر ملک منی لانڈرنگ کرنیوالوں کو تحفظ دیکر انصاف کی بات نہیں کرسکتے‘
غریب ممالک سے غیر قانونی طور پر اربوں ڈالرز منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر لے جانے والے سیاستدانوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امیر ملک منی لانڈرنگ کرنیوالوں کو تحفظ دیکر انصاف کی بات نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ وہ پیسہ جو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوسکتا ہے وہ کرپٹ سیاستدان ملک سے باہر لے جاتے ہیں اور زر مبادلہ کے ذخائر میں کمی سے کرنسی کی قدر گر جاتی ہے اور پھر مہنگائی اور غربت بڑھتی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ چوری ہونے والے اس پیسے کو واپس لانا قریب قریب ناممکن ہے کیوں کہ اس عمل میں کافی پیچیدگیاں ہیں اور طاقت ور منی لانڈررز ایسا ہونے نہیں دیتے کیوں کہ انہیں بہترین وکلاء کی خدمات حاصل ہوتی ہیں اور بدقسمتی سے چونکہ امیر ملک کو غریب ملک سے آنے والے پیسے سے فائدہ ہوتا ہے لہذا وہ امیر ملک بھی اسے روکنے کی زیادہ کوشش نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق مزید بڑھ جائے گا اور بالآخر ہمیں بہت بڑے عالمی بحران کا سامنا ہوگا جو حالیہ مہاجرین بحران سے بھی بڑا ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں اس اسمبلی پر زور دیتا ہوں کہ وہ غریب ممالک سے غیر قانونی طریقے سے رقوم کی ترسیل کو روکنے کیلئے ایک عالمی فریم ورک تشکیل دے اور چوری شدہ رقم کی متعلقہ ملک کو واپسی یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ عالمی امداد کے نام پر غریب ممالک کو ملنے والی رقم اس رقم کے مقابلے میں بہت چھوٹی ہوتی ہے جو اس ملک کے کرپٹ لوگ غیر قانونی طریقے سے ملک سے باہر لے جاتے ہیں۔
’موسمیاتی تبدیلی پر ہمیں پریشان ہونا چاہیے‘
موسمیاتی تبدیلی پر گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پر ہمیں پریشان ہونا چاہیے تاکہ آنے والی نسلوں کو بہتر دنیا دے سکیں۔
گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسم شدید ہوگئے ہیں، آسٹریلیا، امریکا کی جنگلوں میں آگ لگ رہی ہے، دنیا بھر میں بارشوں اور سیلاب میں اضافہ ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیرس معاہدے پر مکمل طور پر عمل کرنا چاہیے۔
’ہمارے نبی ﷺ کی توہین کی گئی، قرآن پاک کے بے حرمتی کی گئی‘
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ کورونا وائرس دنیا کو متحد کرنے کا بہترین موقع تھا لیکن اس کے بجائے مختلف ممالک، قوموں، مذاہب اور فرقوں کے درمیان مزید اختلافات بڑھ گئے۔
انہوں نے کہا کہ ان ہی اختلافات نے اسلام مخالف جذبات کو بھڑکایا اور مختلف ممالک میں مسلمانوں کو بے دردی سے نشانہ بنایا گیا، مزارات کو توڑا گیا، ہمارے نبی ﷺ کی توہین کی گئی، قرآن پاک کے بے حرمتی کی گئی اور یہ سب کچھ آزادی اظہار رائے کے نام پر کیا گیا، چارلی ہیبڈو میں دوبارہ شائع ہونے والے گستاخانہ خاکے اس کی مثال ہیں۔
وزیراعظم نے جنرل اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ اسلاموفوبیا کا خاتمہ کرنے کے لیے عالمی یوم منانے کا اعلان کیا جائے۔
’بھارت میں ریاستی سرپرستی پر اسلاموفوبیا ہورہا ہے‘
بھارت میں مسلمانوں سے ہونے والی زیادتیوں پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ دنیا میں ایک ایسا بھی ملک ہے جہاں ریاستی سرپرستی میں اسلام مخالف سرگرمیاں جاری ہیں اور وہ ملک بھارت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ آر ایس ایس کا نظریہ ہے جو بدقسمتی سے اس وقت بھارت میں برسر اقتدار ہے، آر ایس ایس کا نظریہ ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کیلئے ہے اور دیگر مذاہب کے لوگ کمتر ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ 1992 میں آر ایس ایس نے بابری مسجد کو شہید کیا، 2002 میں گجرات میں مسلمانوں کو قتل عام کیا گیا اور یہ سب اس وقت کے وزیراعلیٰ گجرات نریندر مودی کی نگرانی میں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد 2007 میں 50 سے زائد مسلمانوں کو آر ایس ایس کے بلوائیوں نے سمجھوتہ ایکسپریس میں زندہ جلادیا۔ اس کے علاوہ آسام میں لاکھوں مسلمانوں کو یکطرفہ طور پر شہریت سے محروم کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ بات یہیں نہیں ختم ہوئی مسلمانوں کو کورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا اور کورونا سے متاثرہ مسلمانوں کو کئی مواقع پر طبی امداد فراہم کرنے سے بھی انکار کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت بھر میں گاؤ رکشا کے نام پر انتہاپسند ہندو کھلے عام مسلمانوں کو قتل کردیتے ہیں، بھارت میں تقریباً 30 کروڑ مسلمانوں، عیسائیوں اور سکھوں کو دیوار سے لگانے کی کوششش کی جارہی ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی اور یہ خود بھارت کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ لوگوں کے حقوق سلب کرنے اور انہیں دیوار سے لگانے سے ان میں شدت پسندی جنم لیتی ہے۔
‘بھارت توسیع پسندانہ اقدامات سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کودبارہا ہے‘
کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ فوجی قبضے اور غیر قانونی توسیع پسندانہ اقدامات سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کودبایاجا رہاہے۔
انہوں نے کہا کہ 72 سالوں سے بھارت کا کشمیر پر قبضہ ہے اور بھارتی فورسز وہاں ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کررہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت نے غیر قانونی اور یکطرفہ طور پر مقبوضہ علاقے کا اسٹیٹس تبدیل کرنے کی کوشش کی اور وہاں اضافی فوجی تعینات کیے جس کے بعد وہاں موجود فوجیوں کی تعداد 9 لاکھ ہوگئی ہے تاکہ وہاں 80 لاکھ کشمیریوں پر فوجی محاصرہ کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد بھارت نے حریت رہنماؤں کو گرفتار کرلیا، مواصلاتی نظام بند کردیا، انٹرنیٹ اور موبائل سروس معطل کرکے مکمل بلیک آؤٹ کردیا گیا۔ اس کے علاوہ بھارتی فورسز کشمیریوں کیخلاف طاقت کا بے رحمانہ استعمال بھی کرتی ہیں، ان پر پیلیٹ گنز استعمال کی جاتی ہیں جس سے سیکڑوں کشمیری بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ بھارتی افواج نے جعلی مقابلوں اور سرچ آپریشن کی آڑ میں سیکڑوں کشمیریوں کو شہید بھی کیا اور دفنانے کے لیے لواحقین کو لاشیں بھی نہیں دی جاتیں۔
عمران خان نے مطالبہ کیا کہ عالمی برادری کو کشمیر میں بھارتی مظالم کا نوٹس لینا چاہیے اور انسانیت سوز جرائم پر بھارتی سول و عسکری قیادت کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
’مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جنگی جرم ہے‘
وزیراعظم نے کہا کہ آر ایس ایس اور ہندوتوا نظریے سے متاثر بی جے پی حکومت فوج کی مدد سے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ مستقبل میں اگر کبھی استصواب رائے کرایا جائے تو اس کے نتائج ان کی مرضی کے ہوں۔ بھارت کا یہ اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنیوا کنونشن کے خلاف ہے جس کے تحت مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنا جنگی جرم ہے۔
عمران خان نے کہا کہ بہادر کشمیری کبھی بھی بھارتی قبضے اور ظلم و ستم کے سامنے نہیں جھکیں گے، ان کی جدوجہد مقامی ہے، وہ اپنے حق کیلئے لڑ رہے ہیں، اور نسل در نسل اپنی جانوں کا نذرانہ دے رہے ہیں تاکہ بھارتی قبضے سے آزادی حاصل کرسکیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی حکومت اور عوام حق خودارادیت کے حصول کے جائز مقصد کی جدوجہد میں کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
’بھارت پاکستان کے ساتھ عسکری محاذ آرائی کا خطرناک کھیل کھیل رہاہے‘
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کیلئے بھارت پاکستان کے ساتھ عسکری محاذ آرائی کا خطرناک کھیل کھیل رہاہے۔ بھارت کی متعدد اشتعال انگیزیوں اور جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستان انتہائی تحمل کا مظاہرہ کررہا ہے۔ ہم مسلسل عالمی برادری کی توجہ اس جانب مبذول کروارہے ہیں کہ بھارت پاکستان کیخلاف کوئی جعلی فلیگ آپریشن اور مہم جوئی کرنے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
انہوں نے بھارت کو خبردار کیا کہ اگر بھارت نے کوئی مہم جوئی کرنے کی کوشش کی تو اسے ایک ایسی قوم سے نبردآزما ہونا پڑے گا جو اپنی آزادی کیلئے آخری دم تک لڑنے کا عزم رکھتی ہے۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک جنوبی ایشیا میں دیرپا امن و استحکام نہیں آسکتا، کشمیر بجا طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان نیوکلیئر فلیش پوائنٹ بن گیا ہے، سیکیورٹی کونسل کو اس تباہی کو ہونے سے روکنا ہوگا اور اپنی قراردادوں پر عمل کرانا ہوگا اور کشمیریوں کو بھارت کی جانب سے نسل کشی کے خطرے سے بچانا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ اس مسئلے کے پر امن حل پر زور دیتا رہا ہے اور بھارت کو 5 اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدامات واپس لینے ہوں گے، مقبوضہ کشمیر میں فوجی محاصرہ اور بلیک آؤٹ ختم کرنا ہوگا اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ان کے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا۔
’دو دہائیوں سے کہہ رہا ہوں افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں‘
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ خطے میں امن کا داعی رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم نے افغانستان میں قیام امن کیلئے اپنا کردار ادا کیا۔ میں دو دہائیوں سے کہہ رہا ہوں کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں، واحد حل سیاسی مفاہمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان افغان طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے، پاکستان کو خوشی ہے کہ اس نے اس ضمن میں اپنی ذمہ داری ادا کی، اب افغان رہنماؤں کو امن کے اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ قطر میں ہونے والے بین الافغان مذاکرات میں مستقل سیاسی حل نکالنا ہوگا اور افغان مہاجرین کی جلد از جلد واپسی اس حل کا حصہ ہونا چاہیے۔
مسئلہ فلسطین پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں امن کیلئے فلسطین کا مسئلہ حل کرنا ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی علاقوں کا غیر قانونی انضمام، غیر قانونی آبادکاریاں، فلسطینیوں اور خاص طور پر غزہ کی پٹی میں رہنے والوں کے رہنے کیلئے غیر موافق حالات زندگی کبھی امن نہیں لاسکتیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ فلسطین کے دوریاستی حل کا حامی ہے جس کے تحت آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔
’اقوام متحدہ اور خاص طور پر سلامتی کونسل میں جامع اصلاحات ضروری ہیں‘
آخر میں انہوں نے اقوام متحدہ میں اصلاحات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ عالمی تنازعات، امن و سلامتی کے حصول کے حوالے سے مشترکہ اقدامات کے لیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے ۔
وزیراعظم نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ عالمی تنازعات کو روکنے میں آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کریں، علاقائی تنازعات کے خاتمے کیلئے انہیں سربراہان مملکت کے سطح کا اجلاس بلانا چاہیے اور تمام زیر التوا تنازعات کو حل کرانا چاہیے، دور حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اقوام متحدہ کو مکمل طور پر فعال ہونا چاہیے۔
عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ اور خاص طور پر سلامتی کونسل میں جامع اصلاحات ادارے میں بہتر جمہوریت، ٹرانسپیرنسی، احتساب اور اس کی مؤثریت کو بڑھانے کیلئے انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے حصول کیلئے پاکستان اپنا کردار دیگر ممالک کے ساتھ مل کر ادا کرتا رہے گا تاکہ ایسی دنیا بنائی جاسکے جہاں تنازعات نہ ہوں اور سب کے لیے امن و سلامتی و خوشحالی ہو۔
خیال رہے کہ کورونا وبا کے سبب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا یہ سالانہ اجلاس اس بار ورچوئل ہورہا ہے جب کہ اجلاس میں رہنماؤں کا ریکارڈ کیا گیا خطاب نشر کیا جارہا ہے۔