منی لانڈرنگ: وزیراعظم کی بات پھر بن گئی

فوٹو: فائل 

’حکمرانوں کی کرپشن اور اُس کے کڑے احتساب‘ کو قومی سیاست کا ترجیحی ایجنڈا بنانے میں کامیابی، وزیراعظم عمران خان کی اصل کامیابی تھی جس نے اُنہیں فقط اپنے ہی زور پر اقتدار حاصل کرنے کو ممکن بنا دیا۔ 

وہ حکومت میں آکر اپنے ایجنڈے کے مطابق، پاکستان سے کرپشن ختم کرنے میں کتنے کامیاب ہوئے؟ اور اُن کی کڑے احتساب کی پرسنل کمٹمنٹ کو وہ کتنا پورا کر سکے؟ اِس کا جائزہ اُن کی حکومتی کارکردگی کے تجزیے میں اولین حیثیت اختیار کر چکا ہے، پہلے تو ملزمان کے بطور حکمران ایک دوسرے کے خلاف بنائے نیب کیسز پر گزارا ہو رہا تھا، اب اُن کی حکومت بھی بڑی چوریاں پکڑنے کی دعویدار بن گئی ہے۔

جہاں تک عوام الناس کی حالتِ زار میں جو تبدیلی برپا کرنے کے دعوؤں اور وعدوں کا تعلق ہے وہ تو دو سال کے تادمِ اقتدار میں روایتی سیاسی دعوے ہی ثابت ہوئے، عوامی فلاح کے اقدامات کا روڈ میپ منصوبہ بندی اور فوری نوعیت کے اقدامات تو ایک طرف، نہ اہداف کی کوئی ترجیحات کا ایجنڈا پی ٹی آئی کے پاس تھا، نہ کوئی پالیسی ڈاکیومنٹ اور قانون سازی کا ایسا ہوم ورک جس کے اسمبلی میں ٹیبل ہونے سے پہلے ہی مشتہر ہونے پر اتنی عوامی تائید بلکہ دباؤ ہو جاتا کہ گزشتہ اقتدار کے دس سال میں پی پی اور ن لیگ کی گورننس کے پسِ منظر کے ساتھ اس (پروپیپل مجوزہ اعلان شدہ قانون سازی) کی ن لیگ اور پی پی کی جانب سے مخالفت محال ہو جاتی۔

اگر اسمبلیوں میں مطلوب قانون سازی کے لیے اُن کو (دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں) کی تائید نہ بھی ملتی تو پی پی اور ن لیگ دونوں بڑے سیاسی خسارے میں آ جاتیں لیکن اقتدار میں آنے سے قبل اصلی اور محدود پارلیمانی طاقت، مگر عوام میں جڑیں پکڑتی تحریک انصاف نے کوئی بھی تو ہوم ورک نہ کیا ہوا تھا۔

وگرنہ اقتدار میں آتے ہی تھانہ کچہری کلچر جڑ سے اکھاڑ پھینک کر ہنگامی بنیاد پر اڑھائی کروڑ بےاسکول بچوں کے والدین کی نشاندہی اور رجسٹریشن کرکے اُن کی اسکولنگ کا آغاز، ای گورننس کی تیزی سے اختیاریت جیسے کام تو آئی ایم ایف سے قرضے لینے اور پہلے بھاری بھر ادا کرنے کی گتھیاں سلجھانے کے اذیت ناک عمل کے ساتھ ساتھ بھی شروع ہو سکتا تھا، پہلے چھ ماہ نہ سہی، پہلے سال میں کم از کم حقیقی پالیسی سازی اور مجوزہ قانونی بلوں کی تیاری کا کام ہو جاتا تو آج ابتدائی عملدرآمد ہو رہا ہوتا۔

کووڈ-19 میں بھی اس کا بڑا کمفرٹ وقت ملا لیکن ثابت ہوا کہ کیپسٹی ہی نہیں تھی اور ٹیم مکمل نااہل، بہرحال امیدوں کے بہت سے چراغ، پاکستان کے دوست ممالک کے ہم سے جڑے وسیع تر قومی مفادات اور پاکستان کے کھل کر واضح ہو جانے والے جیواکنامک اسٹیٹس کے باعث جلے تو نئی روشنی ہوگئی۔

کووڈ-19 کی مینجمنٹ میں اب ڈبلیو ایچ او کی طرف سے پاکستان کو دنیا کا 7واں کامیاب ترین ملک قرار دینے سے عمران حکومت کی تیزی سے بگڑتی بات پھر بن گئی۔ 

وزیراعظم کا انٹرنیشنل امیج تو پہلے ہی اونچے درجے پر تھا اب اور بلند ہو گیا، اب جو انہوں نے جنرل اسمبلی کے ورچیوئل اجلاس میں ملک کی طرح منی لانڈرنگ کی غریب عوام دشمنی کا شور مچایا ہے، اُس سے وہ ترقی پذیر دنیا کے ارب ہا کے اپنے کرپٹ حکمرانوں کے ہاتھوں لٹے پٹے عوام کے موثر وکیل بن گئے۔

اگر انہوں نے پاکستان ہی کی طرح عالمی فورمز اور اپنے بیانات اور انٹرویوز میں اس کا زور شور جاری رکھا تو وہ پاکستان میں اپنی کمزور گورننس سے لڑکتے پھڑکتے رہیں، ترقی پذیر دنیا کے ہمدرد اور بےباک لیڈر کے طور پر اپنا بڑا نام بنا لیں گے۔

اسلامو فوبیا پر بھی جس بےباکی سے انہوں نے بات کی، مسلم دنیا کے بےبس اور کڑھتے عوام کے دلوں میں وہ جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے، بھارت کے ہیوی مینڈیٹ سے ہندو بنیاد پرست ہونے کا جو نقشہ اُنہوں نے عالمی فورم سے خطاب میں کھینچا، اُس نے بھارت کی فاشسٹ حکومت اور اس کے پشت پناہوں کو یقیناً پریشان کرکے رکھ دیا۔

اب جنرل اسمبلی کے شیڈول کے مطابق فورم اینٹی کرپشن ایجنڈے پر ایک خصوصی اجلاس 2021کے پہلے چھ ماہ میں ہوگا، اس پر وزارتِ خارجہ کو وزیراعظم کی خصوصی تیاری کرانے کا فرض پورا کرنا ہوگا، کیونکہ منی لانڈرنگ کے حوالے سے عالمی ادارے، فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک نے بھارت کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد پیش کردیے ہیں، فیکٹس فائنڈنگ کے کسی سنجیدہ اقدام پر اس کا یقیناً تعلق پاکستان کے خلاف برسوں سے ہونے والی دہشت گردی سے نکلے ہی نکلے گا۔

بھارت میں 11پاکستانیوں کا قتل

پاکستان ہندو کونسل نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کے خلاف کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر رمیش کمار کی قیادت میں بھارت گئے 11پاکستانی پاسپورٹ ہولڈرز کے قتل کے خلاف تفصیلات جاننے کے لئے بھارتی حکومت سے پہنچ کا جو مطالبہ کیا ہے وہ کونسل کا ہی کیوں، پاکستان کا سرکاری مطالبہ کیوں نہیں بن رہا؟ اور اگر بن رہا ہے تو اس میں زور کیوں نہیں؟یہ معاملہ پاکستانی ہندوئوں کا نہیں پاکستانیوں کا اور انسانی اعتبار سے بےحد حساس ہے۔

اس پر ہماری سول سوسائٹی کو ڈاکٹر رمیش صاحب کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے اور حکومت پاکستان کے ساتھ ناصرف مطالبات تسلیم کرانے بلکہ ریاست بھارت کے اس سانحہ پر بھی فاشسٹ رویے کو دنیا کے سامنے بےنقاب کرنے اور انسانی حقوق اور انصاف کے عالمی اداروں سے رجوع کرنے میں ڈاکٹر صاحب سے رسمی یکجہتی کرنے کے بجائے عملی اقدامات کے لئے ان کا بھرپور ساتھ دینا بڑی قومی ذمے داری ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔