Time 30 ستمبر ، 2020
بلاگ

سیاست کے شریف

فوٹو: فائل 

بات تقریر سے شروع ہوئی اور ملاقات پر ختم ہوئی۔ ایک صاحب رجسٹر لئے بیٹھے ہیں جن میں ان کے بقول ملاقاتیوں کا نام، پتا یہاں تک کے اوقات بھی موجود ہیں۔ جب کوئی ملاقاتی کہتا ہے میں نہیں ملا تو یہ موصوف بتا دیتے ہیں کہ آپ کب ملے۔

کیا ہی بہتر ہو کہ اب باقاعدہ طور پر اوقات کار مقرر ہو جائیں صبح، دوپہر اور شام، کوئی ایمرجنسی ہو تو وقت کی قید نہیں بس بیماری کی نوعیت پتا ہونی چاہیے، خیر بات ہو رہی تھی ایک تقریر کی جس سے ایسا لگا کہ سیاسی سونامی سا آگیا ہو۔

کیا آن دی ریکارڈ اور کیا آف دی ریکارڈ سب سامنے آگیا، کہیں ایک اور تقریر ہو گئی تو سیاسی کلینک کا مزید ریکارڈ سامنے آجائے گا۔ یہ تقریر تھی نااہل اور سزا یافتہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جس نے سابق صدر آصف علی زرداری کی ’’اینٹ سے اینٹ‘‘ بجانے والی بات کی یاد تازہ کردی۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔

اب میاں صاحب نے تمام شریفوں پر اِدھر اُدھر کی ملاقاتوں پر پابندی لگا دی ہے جس کا بہرحال سب سے زیادہ نقصان بھائی شہباز شریف کو ہوگا۔ لگتا ہے اس بار جاوید ہاشمی ولی بننے جارہے ہیں۔ آپ کو 2000یاد ہوگا جب اچانک کچھ خفیہ ملاقاتوں کے نتیجے میں میاں صاحب اہل و عیال کے ساتھ جدہ روانہ ہو گئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب وکیل خواجہ نوید میاں صاحب سے ملنے لانڈھی جیل جایا کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ اکثر حمزہ کا انتظار کرتے اور مجھ سے کہتے ذرا معلوم کرو اس سے کہ کام کا کیا بنا۔ چونکہ اسے ملاقات کی اجازت نہیں تھی تو میں جیل سے باہر جاتا اور حمزہ سے معلوم کرتا۔

وہ کہتا کام ہو رہا ہے جب ایک دن وہ اچانک سعودی عرب روانہ ہوئے تو پتا چلا کہ وہ کام کیا تھا اور وہ مجھ سے کیوں کہتے تھے کہ خواجہ میں یہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتا ’’اب ملاقات ہو تو ایسی۔ دیکھنا پڑے گا کہ لندن جانے سے پہلے کیسی اور کس کی ملاقاتیں ہوئیں۔

وہ لندن پہنچ گئے تو باقیوں پر پابندی لگ گئی۔ بہرحال اُن کی تقریر کے تسلی بخش جواب کا تاحال انتظار ہے۔ یہ بات تاریخی طور پر درست ہے کہ ہمارے اکثر سیاسی اکابرین نے جب آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو آمریت کی آغوش میں پایا۔ اب اگر ملک میں صرف جمہوریت ہوتی تو آغوش بھی کسی جمہور کی ہوتی۔

شریفانہ سیاست کا آغاز بھی کچھ ایسے ہی ہوا تھا، ضیاء الحق کی تھپکیوں سے بڑے ہوئے تو کچھ اِدھر اُدھر ہاتھ مارے، جوان ہوئے تو آنکھیں دکھانے لگے۔ اب بھائی لوگ کہتے ہیں، تربیت میں کچھ کمی رہ گئی۔ شریفوں کی سیاست نفع، نقصان کی رہی ہے۔ سیاست میں کاروباری لوگوں کو لائیں گے تو وہ کاروبار ہی کریں گے۔

اس لئے محمد خان جونیجو کو ضیا صاحب نے فارغ کیا تو شریف برادران نے موقع مناسب جانا۔ اب بھائی محمد زبیر کوئی چوہدری نثار تو نہیں کہ ملاقاتیں خفیہ رکھنے کا فن جانتے ہوں۔ چالیس سال پرانی دوستی تھی تو پھر یہ کیا ہوا۔ ایک وقت تھا جب میاں صاحب بھی ’لاڈلے‘ تھے ایسے کہ 1993میں سپریم کورٹ نے انکی حکومت کو بحال کیا اور صدر غلام اسحاق خان نے انہیں قبول کرنے سے انکار کیا تو صدر صاحب کو جانا پڑا۔

کاکڑ صاحب نے نگراں وزیراعظم معین قریشی سے درخواست کی کہ آپ صدر بن جائیں، بےنظیر اور میاں صاحب مان جائیں گے مگر انہوں نے معذرت کرلی۔ چوہدری نثار میاں برادران کو اچھی طرح جانتے تھے اور وہ دوسرے لوگوں سے بھی قریب تھے۔ 2014سے 2016تک وہ نواز شریف صاحب سے کہتے رہے کہ وہ لڑائی نہ لڑیں جو آپ لڑ نہیں سکتے۔

میاں صاحب کے پرنسپل سیکرٹری بھی بہت سے واقعات کے عینی شاہد ہیں اور آجکل اپنی یادداشتیں تحریر کررہے ہیں۔ اُن کے بقول میاں نواز شریف کی دو بڑی سیاسی غلطیاں جنرل کرامت اور جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے جلد بازی کے فیصلے ہیں۔ ’’کرامت صاحب کے استعفیٰ سے پہلے میاں صاحب ان کو بٹھانا چاہتے تھے۔

میری رائے مانگی تو میں نے کہا نہ کریں حکومت چلی جائے گی۔ برطرفی کا لیٹر تیار ہو گیا تھا مگر میں نے روک لیا ایک دن کے لئے۔ اسی دوران وہ ملاقات کے لئے آئے۔ اُس دن میاں صاحب خوش نظر آرہے تھے۔ مہدی تھینک یو وہ تو خود استعفیٰ دے رہے ہیں‘‘۔ 1997میں دوتہائی اکثریت تھی۔

نہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے جھگڑے کی ضرورت، نہ ہی فاروق لغاری سے مسئلہ تھا اور آپ چلے لڑنے اُن سے جن کی وجہ سے آپ کی پہلی حکومت بھی گئی پھر دوسری بھی گئی تیسری بار تو نہ صرف آپ نااہل ہوئے بلکہ سزا یافتہ بھی۔

جنرل (ر) پرویز مشرف کو آرمی چیف بنانے کا مشورہ اُنہیں شہباز شریف اور چوہدری نثار نے ’مری‘ کی ملاقات کے بعد دیا مگر چھ ماہ بعد ہی تعلقات میں تنائو آنے لگا۔ مشرف صاحب اپنے مزاج کے آدمی تھے۔

اِس وجہ سے جب میاں صاحب نے برطرفی کا فیصلہ کیا تو شہباز اور نثار کو نہیں بتایا۔ مہدی صاحب کے بقول ’’میں نے درخواست بھی کی کہ مشورہ کرلیں مگر انہوں نے کہا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگر میں اس دن ایئر پورٹ جلدی پہنچ جاتا تو مشرف صاحب کے آنے تک خط کو روک لیتا‘‘۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) اگر آج سیاسی طور پر مضبوط کھڑی ہے، اُس کا ووٹ بینک برقرار ہے تو اِس میں بہرحال شریف برادران کے بہت سے ترقیاتی کام ہیں۔

آپ لاکھ اختلاف کریں مگر میاں صاحب نے بہت سے ایسے سیاسی فیصلے بھی کئے جس سے چھوٹے صوبوں کا اعتماد پنجاب پر بحال ہوا۔ بھارت سے دوستی کے حوالے سے بھی اُن کا اپنا ایک نقطہ نظر رہا ہے۔ آخر پرویز مشرف بھی آگرہ میں بہت آگے چلے گئے تھے۔

سیاست دانوں نے بہت غلطیاں کی ہیں، کرپشن کے سنگین مقدمات اور معاملات میں مگر یہ یک طرفہ ٹریفک نہیں رہا۔ کون سا الیکشن ہے جس میں مداخلت نہیں ہوئی۔ کون سی بڑی جماعت ہے جس کو نہیں توڑا گیا، حکومت گرانے سے حکومت بنانے تک باتیں سامنے ہیں۔

جاتے جاتے میاں صاحب ذرا برطانیہ کے وزیراعظم سے یہ معلوم کرلیں کہ وہ اپنی تنخواہ میں کٹوتی کی وجہ سے گھر میں بیٹے کی آمد کے لئے آیا کیوں نہیں رکھ پا رہے۔ سیاست میں معیار ایسے قائم ہوتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔