01 اکتوبر ، 2020
چند دن پہلے ایک نیب افسر سے کہا، نیب شہباز شریف پر کیس پہ کیس بنارہا جبکہ وہ آئے روز کہیں، میں نے دھیلے کی کرپشن نہیں کی، دھیلے کی کرپشن ثابت ہو جائے تو مجھے مرنے کے بعد بھی قبر سے نکال کر لٹکا دیا جائے۔
نیب افسر بولا، باقی سب کیس چھوڑیں، صرف شہباز خاندان کا ٹی ٹی کیس 58والیمز، ساڑھے 5لاکھ صفحات پر مشتمل، اب شہباز شریف نے دھیلے کی کرپشن کی یا نہیں مگر ہم ساڑھے 5لاکھ صفحات کی فوٹو کاپیاں کرا کرا دھیلے دھیلے کے محتاج ہو چکے۔
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں، یہ ٹی ٹی کیس تب کا جب شاہد خاقان عباسی وزیراعظم، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مشکوک ٹرانزیکشنز الرٹ آیا، تحقیقات شروع ہوئیں اور معاملہ بڑھتا بڑھتا یہاں تک آ پہنچا، یہ بھی سنتے جائیے، پچھلے چار ماہ سے ضمانت پر شہباز شریف نے درخواست ضمانت خود واپس لی۔
لیکن مسلم لیگ نے شاہد خاقان عباسی دور میں شروع ہوئے اس کیس کو لاہور ہائیکورٹ میں اپنی درخواست ضمانت خود واپس لینے کے بعد گرفتاری کو نیب نیازی گٹھ جوڑ قرار دیا۔
اسی لاہور ہائی کورٹ سے حمزہ شہباز کو چھٹی والے دن گھر کے بیسمنٹ میں ضمانت ملی، یہیں سے مریم نواز کو ضمانت ملی، یہیں سے 50روپے کے اسٹامپ پیپر پر نواز شریف کو ضمانت ملی۔
یہیں سے ایک اور کیس میں شہباز شریف کو ضمانت ملی،یہیں سے شہباز شریف کی بنا پیش ہوئے اور پہلی ضمانت کے مچلکے جمع نہ کروانے کے باوجود ضمانت میں توسیع ہوئی، یہ سب ہوا، کوئی نہ بولا، مگر اپنی ضمانت کی درخواست خود واپس لیکر خودہی مظلو م، واہ رے میری فراڈن سیاست۔
ٹی ٹی کیس کو لے لیں، اس مبینہ کہانی سے چندٹوٹے، اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو یہ کیسے ممکن 1999میں اثاثے 2کروڑ 90لاکھ، 2003میں اثاثے ایک کروڑ 80لاکھ اور وزارتِ اعلیٰ کے 10برسوں میں ٹی ٹی برکتوں سے یہ اثاثے 8ارب سے زائد ہوئے، اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو کیسے ممکن بنا کاروبار صرف ٹی ٹیوں سے شہباز شریف کے اثاثے 70گنا، حمزہ شہباز کے اثاثوں میں 3ہزار گنا اضافہ ہوگیا۔
سلمان شہباز کے اثاثے 8ہزار گنا بڑھے، اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو وہ 32کمپنیاں، وہ گڈنیچر ٹریڈنگ، نثار ٹریڈنگ، یونیتاس پرائیویٹ لمیٹڈ،وقار ٹریڈنگ، مقصود اینڈ کو،مشتاق اینڈ کو سمیت فرنٹ کمپنیاں، وہ 7کمپنیوں میں 7ارب، وہ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے دفتر میں سلمان شہباز کے کلاس فیلوز ملک علی احمد اور نثارگل ڈائریکٹرز مگر ان کی کمپنیاں اور ان کمپنیوں میں شہباز خاندان کے پیسے آجارہے۔
اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو یہ کیسے ممکن کہ شہباز فیملی کا ملازم ملک مقصود، خود تو 5مرلے کے کرائے کے گھر میں رہ رہا ہواور بینک اکاؤنٹوں میں 7ارب، اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو وہ محبوب پھیری والا، وہ منظور پاپڑ فروش، جن کے نہ پاسپورٹ، کراچی بھی نہ دیکھا ہوا، مگر وہ شہباز خاندان کو دبئی، لندن سے ٹی ٹیاں بھجواتے رہے۔
اگر دھیلے کی کرپشن نہیںہوئی تو دبئی کی 4کمپنیاں شہباز خاندان کی خواتین کے اکاؤنٹوں میں کیوں پیسے بھجواتی رہیں حالانکہ ان خواتین کا کاروبار سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو کہاں سے آئی رقمیں ایچ 96ماڈل ٹاؤن میں اکٹھی ہوتیں۔
جہاں سے سلمان شہباز کا دوست (جم ٹرینر)طاہر نقوی بلٹ پروف لینڈ کروزر میں اختر، صدیق، عابد سمیت پنجاب پولیس، ایلیٹ کمانڈوز کی زیرنگرانی رقمیں 55کے ماڈل ٹاؤن لے جاتا، اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو چار غیر ملکی بنا کسی وجہ کیوں شہباز خاندان کو پیسے بھیجتے رہے۔
اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو پیسے گننے والا توقیر سرور ڈار، شہباز خاندان کے اکاؤنٹوں میں رقمیں جمع کروانے، نکلوانے والے شعیب قمر، مسرور انور، 96 ایچ ماڈل گھر پر رقمیں وصول کرنے والے اردلی ثناء اللہ، خانساماں شوکت، شہباز خاندان کے سب گھروں میں رقمیں پہنچانے والا فضل داد عباسی، ان سب کے نگران چیف فنانشل افسر عثمان اور مشتاق چینی سمیت وعدہ معاف گواہ کیوں الف لیلیٰ کہانیاں سنا رہے۔
اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو ایسا کیوں کہ رقمیں آتیں، انہیں مختلف بینک اکاؤنٹس میں ڈالا جاتا، رقمیں نکالی جاتیں، لاہور ڈیوٹی فری شاپ کے قریب ایک منی چینجر کے ذریعے رقمیں باہر بھجوائی جاتیں، جہاں سے فرضی ناموں پر یہ رقمیں شریف خاندان، کمپنیوں، فرنٹ مینوں کے اکاؤنٹ میں واپس آتیں، اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو شہباز شریف نے اہلیہ تہمینہ درانی کو ایک ولا، ایک فلیٹ، ایک کاٹیج کن پیسوں سے خرید کردیا۔
حمزہ شہباز نے جوہر ٹاؤن لاہور میں 3پلاٹ کن پیسوں سے خریدے، نصرت شہباز کے اکاؤنٹ میں ٹی ٹی ٹیاں کہاں سے آئیں، یہاں سے پیسے تہمینہ درانی کے اکاؤنٹ میں کیوں گئے۔
اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو شہباز شریف کو کیوں کہنا پڑا کہ میرے بچے کیسے ارب پتی ہوئے مجھے نہیں پتا، بیگمات کے اکاؤنٹس میں ٹی ٹیاں کہاں سے آئیں، جائیدادیں کیسے بنائیں مجھے نہیں پتا۔
اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو شہبا زشریف کو تو 2009 میں وراثت میں صرف ایک رمضان شوگر مل ملی، کوئی کاروبار نہیں تھا، بحیثیت وزیراعلیٰ تنخواہ بھی لیتے نہیں تھے پھر جائیدادیں، کمپنیاں، لندن فلیٹس، بیگمات کو تحفے کہاں سے، اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو سلمان شہباز کے رمضان شوگر اور العریبیہ شوگر ملوں کے ملازمین، چپڑاسی مقصود کے اکاؤنٹ میں 2ارب 30کروڑ، کلرک شبیر قریشی کے اکاؤنٹ میں ایک ارب، رانا وسیم کے اکاؤنٹ میں 29کروڑ، اقرار کے اکاؤنٹ میں 64کروڑ، کلرک تنو یر الحق کے اکاؤنٹ میں 52کروڑ، کلرک خضر حیات کے اکاؤنٹ میں ایک ارب 20کروڑ، توقیر الدین کے اکاؤنٹ میں 45کروڑ، یہ سب کیوں۔
اگر دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو جعلی کمپنیاں، فرضی ٹرانزیکشنز، پیسہ گھماؤ، کالاد ھن سفید بناؤ کیوں اور اگردھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی تو مسلم لیگ پارٹی اکاؤنٹ ذاتی ملازموں کے ناموں پر کیوں کھول رکھے تھے، 60لوگوں نے جو سوا ارب کے قریب پارٹی فنڈ دیا، وہ کہاں گیا۔
یہ دھیلے کرپشن ’کے‘ چند دھیلے مطلب چند نمونے، ایسے بیسوؤں نمونے اور بھی، یہ علیحدہ بات اس نظام، اس قانون، اس احتساب میں دھیلے کی کرپشن بھی ثابت نہیں ہوتی مگر قبلہ یہ نہ کہا کریں کہ دھیلے کی کرپشن نہیں ہوئی، دکھ ہوتا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔