پاکستان
Time 06 اکتوبر ، 2020

سندھ حکومت کا جزائر سے متعلق صدارتی آرڈیننس واپس لینے کا مطالبہ

سندھ حکومت نے جزائر سے متعلق وفاق کا 'پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس 2020' تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے آرڈیننس واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔

کراچی میں سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے سندھ اور بلوچستان کے جزیروں کے حوالے سے صدارتی آرڈینس کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا۔

ناصر حسین شاہ کا کہنا تھاکہ یہ جزیرے سندھ حکومت کے تھے اور رہیں گے، ان جگہوں پر ماہی گیر رہتے ہیں اور وہی رہیں گے، ہم ایسی ترقی اور آرڈیننس کو نہیں مانتے۔

ترجمان سندھ حکومت مرتضیٰ وہاب کاکہنا تھاکہ وفاق نے سندھ و بلوچستان کے حقوق پر شب خون مارا، 2 ستمبر کا آرڈیننس 3 اکتوبرکو منظر عام پر آیا جو ان کی بدنیتی ظاہر کرتا ہے، جزیرے سندھ کی ملکیت ہیں اور ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ پاکستان آئی لینڈز ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا آرڈیننس جاری کرکے وفاق نے اختیارات سے تجاوز کیا،ان جزائر پر بسنے والے ماہی گیر ہی ان کے مالک ہیں یہ وفاق کی ملکیت نہیں، ان پر حقِ ملکیت ظاہرکرکے  آئین سے تجاوز کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق کے اس عمل کی جتنی مذہمت کی جائے کم ہے، سندھ حکومت اس آرڈیننس کو واپس لینے کا مطالبہ کرتی ہے، انہوں نے  سندھ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر  وفاق کو خط لکھنے کا بھی اعلان کیا۔

پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس  کیا ہے؟

خیال رہے کہ گذشتہ دنوں صدر مملکت کا جزائر سے متعلق  2 ستمبر 2020 کو جاری کیاآرڈیننس سامنے آیا تھا جس کے بعد سے سندھ اور وفاق میں نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔

صدارتی آرڈیننس کے مطابق 'ٹیریٹوریل واٹرز اینڈ میری ٹائم زونز ایکٹ 1976' کے زیر انتظام ساحلی علاقے وفاق کی ملکیت ہوں گے اور سندھ کے بنڈال اور بڈو سمیت تمام جزائر کی مالک وفاقی حکومت ہوگی جب کہ حکومت نوٹیفکیشن کے ذریعے ’پاکستان آئی لینڈز ڈیویلپمنٹ اتھارٹی‘ قائم کرے گی جس کا ہیڈکوارٹرز کراچی میں ہوگاجب کہ علاقائی دفاتر دیگر مقامات پر قائم ہوسکیں گے۔

آرڈیننس کے مطابق اتھارٹی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کا قبضہ حاصل کرنے کی مجاز ہوگی اور آرڈیننس کے تحت اٹھائے گئے اقدام یا اتھارٹی کے فعل کی قانونی حیثیت پر کوئی عدالت یا ادارہ سوال نہیں کرسکےگا۔

آرڈیننس کے متن میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی غیر منقولہ جائیداد پر تمام لیویز، ٹیکس، ڈیوٹیاں، فیس اور ٹرانسفر چارجز لینے کی مجاز ہوگی۔

آرڈیننس میں کہا گیا ہے کہ آرمی کے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کے مساوی حاضر یا ریٹائرڈ افسر بھی چیئرمین تعینات ہوسکے گا جب کہ چیئرمین کے عہدے کی مدت چار سال ہوگی جس میں ایک بار توسیع ہو سکے گی۔

مزید خبریں :