09 اکتوبر ، 2020
میرے یہ لفظ پاکستان پر حکمرانی کرنے والوں کو پسند نہیں آئیں گے کیونکہ پچھلے 40 سال سے جتنے بھی حکمران آئے انہوں نے لوگوں سے زیادہ اپنا خیال کیا، موجودہ حکمران بھی پرانے حکمرانوں کی ڈگر پر چل پڑے ہیں۔
لوگ ہر مرتبہ سیاستدانوں کے خوشنما وعدوں کے چکر میں آ جاتے ہیں، اسی چکر میں انہوں نے بہت کچھ گنوا دیا، قرضے کسی اور نے لیے، بوجھ پاکستانی عوام پر ہے، کرپشن کسی اور نے کی، بھگت پاکستان کے عوام رہے ہیں، دولت کے انبار کسی اور نے لگائے، بھوکے پاکستان کے لوگ ہو گئے۔
40 برس پہلے کوئی ایک فرد کماتا تھا تو گھر کے 10 افراد کھاتے تھے مگر آج ایک فرد کماتا ہے تو خود اس کے لیے زندگی گزارنا مشکل ہو گیا ہے، یقیناً ایسا ایک دو برس میں تو نہیں ہوا مگر گزشتہ دو برسوں نے اس میں اضافہ کر دیا ہے۔
80کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ڈالر 8 سے 10 روپے کا تھا اور آج ڈالر 160 روپے سے اوپر ہے، کیا ہمارے 40 برسوں کی کمائی یہی ہے؟ پچھلی حکومتوں کی کارکردگی بری سہی، موجودہ حکومت کی کارکردگی بھی کوئی اچھی نہیں کہ دن رات اس کی تعریف کی جا سکے نہ ہی میں ان کالم نگاروں کی طرح ہوں جو سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی مانند کام کرتے ہیں۔
زندگی کا ایک ہی مشن ہے، اسلام کا غلبہ اور پاکستان کی ترقی چاہتا ہوں، پچھلے کئی برسوں سے تمام سیاسی پارٹیوں سے رابطے رہے، ان کے رہنماؤں سے رابطے رہے، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف، ق لیگ، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، ایم ڈبلیو ایم، تحریک استقلال، جماعت اسلامی، پاکستان جمہوری پارٹی سمیت باقی پارٹیوں کے قائدین سے روابط رہے۔
مشاہدے میں یہی آیا کہ سیاستدان مفادات کے لیے ایک دوسرے سے ہاتھ بھی ملاتے ہیں، ایک دوسرے کو برا بھلا بھی کہتے ہیں، ضمیر کو اِدھر اُدھر کرتے ہوئے کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، بس اقتدار سے فیض یاب ہونا چاہتے ہیں۔
عوام سے کسی کو شاید غرض ہی نہیں ورنہ عوامی زندگی بدل جاتی، لوگوں کی زندگیاں پہلے سے کہیں بہتر ہوتیں، لوگوں کی زندگیوں میں مشکلات بڑھی ہیں، 40 سالہ سیاست پاکستانی عوام کو اس موڑ پر لے آئی ہے کہ ان کے دل زخمی ہیں، ان کے خواب بکھر چکے ہیں، ان کی خواہشیں خواب بن گئی ہیں، اب وہ سیاستدانوں کی باتوں پر اعتبار نہیں کر رہے، ان کے ساتھ ہر ایک نے وعدے کیے مگر اقتدار میں آتے ہی وعدوں کو ہوا میں اُڑا دیا گیا، سیاستدانوں کی حالیہ لاٹ میں کوئی ایسا دکھائی نہیں دیتاجس کے وعدوں پر بھروسہ کیا جائے۔
2018کے الیکشن میں لوگوں نے روایتی پارٹیوں کو چھوڑ کر تحریک انصاف کو جتوایا، لوگوں نے عمران خان سے بہت امیدیں وابستہ کیں، لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستان بدل جائے گا، تبدیلی کی خواہش میں لوگ پی ٹی آئی کے ووٹر بن گئے مگر اقتدار میں آ کر عمران خان نے بھی پرانی رسموں کو نبھایا بلکہ ان کے مشیروں کی فوج نے اپنی بری کارکردگی سے مہنگائی اور بیروزگاری سمیت مسائل میں اضافہ کیا۔
مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے ذہین ترین مشیروں کے باعث 51 برس حکومت کی تھی مگر عمران خان اپنے نالائق مشیروں کے سبب کارکردگی کے آئینے میں بےنقاب ہو گئے ہیں۔
پاکستان میں ایک عام آدمی کی اوسطاً کمائی 12 سے 14 ہزار روپے ہے، حکومت کے قابل مشیروں سے چھوٹی سی گزارش ہے کہ وہ چودہ ہزار کمانے والے کسی بھی فرد کے گھرانے کا بجٹ بنا دیں۔
میرے نزدیک پاکستان کی بربادی میں آکسفورڈ اور ہارورڈ سمیت بیرونی یونیورسٹیوں سے پڑھنے والوں کا بڑا کردار ہے، یہ لوگ جہاں پڑھتے ہیں، جن لوگوں کے ساتھ پڑھتے ہیں، ان کے مسائل عام پاکستانیوں جیسے نہیں انہی لوگوں نے ملکی سیاست میں کرپشن کو رواج دیا۔
بدقسمتی سے پاکستان میں گزشتہ 40 برسوں سے اقلیت حکومت کر رہی ہے کیونکہ اکثریت تو بھوک، افلاس اور مہنگائی کا شکار ہے ان کا تو کوئی نمائندہ پارلیمان کا حصہ نہیں۔
کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں کوئی عام آدمی الیکشن لڑ ہی نہیں سکتا کیونکہ الیکشن دولت کا کھیل بنا دیا گیا ہے، جب پاکستان کے اقتدار میں خالصتاً عام پاکستانی نہیں آتا عوام کی زندگی میں تبدیلی نہیں آ سکے گی، ان انگریزی ماڈلوں سے جب تک جان نہیں چھوٹتی، اُس وقت تک بربادیوں کا سفر جاری رہے گا۔
میں نے جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں کے سربراہوں کو دھوتی کرتا پہنے عمدہ کارکردگی دکھاتے دیکھا جبکہ پاکستان کے حکمرانوں کو برینڈڈ سوٹ پہن کر بری کارکردگی کا مظاہرہ کرتے دیکھا۔ پاکستانی حکمرانوں کے لئے کارکردگی بنیادی سوال ہے جس کا جواب حکمرانوں کے پاس نہیں۔ بقول غالبؔ ؎
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔