10 اکتوبر ، 2020
کیسا زمانہ آگیا ہے کہ اب خلقِ خدا صرف یہ دعائیں مانگتی ہے کہ ہمارے بڑے خان صاحب وفاقی کابینہ کے اجلاس یا بنی گالہ میں بیٹھے کسی غلط کام کا نوٹس نہ لیں۔
کسی انتظامی افسر کی نااہلی، نالائقی یا غفلت پر سخت غصے کا اظہار نہ کریں، ذخیرہ اندوزوں کے خلاف بھی کسی قسم کے کریک ڈاؤن کا حکم صادر نہ فرمائیں کہ کہیں اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اور غربت کے مارے مہنگائی کے ہاتھوں دُہائیاں دینے، پرائیویٹ اسکولوں کی فیسیں ادا نہ کر سکنے والے والدین کی گردن پھر کسی پھندے میں نہ کس دی جائے۔
بقول ہمارے چن صاحب مختیاریا گل ودھ گئی اے، اب طفل تسلیوں سے کام نہیں چلے گا، وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جو ہر ہفتے وزراء کی بیٹھک سجائی جاتی ہے اور جو اندرونی کہانیاں ہمیں سنائی جاتی ہیں کہ وزراء کے ایک گروپ کے دباؤ پر بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز مؤخر کر دی گئی اور ہمارے خان صاحب نے درآمدی گندم کی آمد میں تاخیر پر جس ناراضی کا اظہار کیا ہے اور فوری طور پر چینی، آٹا مافیا کے خلاف ایک بار پھر کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے۔
کوئی اُن سے پوچھے کہ گزشتہ اڑھائی سالہ دور اقتدار میں وفاقی کابینہ کا کوئی ایسا اجلاس بھی منعقد ہوا ہے جس میں حکومت نے ایسے سخت احکام جاری نہ کیے ہوں اور ان احکامات کا صوبائی حکومتوں پر کوئی تھوڑا بہت بھی اثر ہوا ہو خصوصاً پنجاب، خیبرپختونخوا اور عموماً بلوچستان جو تحریک انصاف کے ووٹ بینک کے اصل مراکز ہیں، یہاں کے لاٹ صاحبوں نے اِن احکامات پر ایک فیصد بھی عمل درآمد کرکے مافیاز کو کنٹرول کرنے کی کوئی کامیاب کوشش کی ہو؟
اب تو عوام ایسےنوٹسوں کو مہنگائی کا کوڈ ورڈ(خفیہ پیغام) سمجھنے لگے ہیں کہ جس دن کوئی نیا نوٹس لیا جاتا ہے تو سمجھ لیں مہنگائی کا ایک نیا طوفان آپ کے سامنے کھڑا ہے۔
اس خفیہ پیغام کی دلیل کو جانچنے کے لیے حکومت کے ایسے احکامات کا مرحلہ وار تجزیہ کرلیں تو حقیقت سمجھ میں آجائے گی کہ اِس کی انتظامی مشینری پر گرفت کتنی مضبوط ہے؟ وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں جہاں خان صاحب یہ کہیں کہ نواز شریف اور چالیس سے زائد ن لیگیوں بشمول تین سابق جرنیلوں کے خلاف مقدمہ بغاوت کا اُنہیں علم میڈیا کے ذریعے ہوا اور پھر ناراضی کا اظہار بھی کریں اور ان کے حواری بھی اس مقدمے کی پشت پناہی سے انکار کررہے ہوں لیکن مقدمہ جوں کا توں اس پورے نظام کا منہ چڑاتا اپنی جگہ پر برقرارہے۔
طرفہ تماشہ یہ ہو کہ ن لیگیے گرفتاری دینے تھانے پہنچیں اور انہیں دیکھ کر تفتیشی افسر ہی بھاگ جائے، کوئی انہیں گرفتار کرنے والا اور کوئی مدعی مقدمہ سے پوچھنے والا نہ ہو کہ آخر یہ کس کی کارستانی ہے کہ بیٹھے بٹھائے چور سپاہی کا یہ کھیل شروع کرکے ایک نیا سیاسی بھونچال برپا کر دیا گیا ہے؟
حکومت نہ ہو گئی ٹام اینڈ جیری کارٹون سیریز کے کردار ہو گئے کہ پنگا بھی لیتے ہیں پھر مانتے بھی نہیں، اُلٹا سینہ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ مجھے کچھ پتابھی نہیں۔
زمانہ بدل گیا، روایتیں ٹوٹ رہی ہیں، قانون کے اصول ضابطے سب طاق میں رکھے جا چکے ہیں، اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ دنیا ہمارے قانون کا مذاق اڑا رہی ہے اور طرز حکومت پر نت نئی پھبتیاں کسی جارہی ہیں لیکن قانون ہے کہ ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔
حیرتوں میں غرق ہونے کا زمانہ آگیا کہ عوامی فیس سیونگ کے نام پر نمبر ٹنگ قسم کے تین چار وفاقی وزراءکابینہ کے اجلاس میں مہنگائی کا رونا تو روتے ہیں لیکن جیسے ہی اجلاس ختم ہو تو وزارت خزانہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر چینی 9روپے فی کلو، گھی 10روپے فی کلو، 20کلو آٹے کا تھیلا 60روپے اور نہ جانے زندگی کی سانسیں قائم رکھنے والی کون کون سی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی سمری اقتصادی رابطہ کمیٹی کو ارسال کر دیتی ہے اور رہی سہی کسر جولائی میں استعمال ہونے والی بجلی کی قیمتوں میں 8اکتوبر کو اضافہ کرکے کورونا وبا کے دوران دیا گیا نام نہاد ریلیف سود سمیت واپس لے کر پُوری کردی جائے، اب یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ چینی انکوائری کمیشن نے اپنی تحقیقات میں اس حقیقت پر مہر ثبت کردی کہ ہمارے اقتصادی و معاشی پہلوان ہی اس بحران کے ذمہ دار تھے لیکن شکر ہی ادا کرنا چاہیے کہ خان صاحب نے اس تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ کا فی الحال نوٹس نہیں لیا ورنہ وفاقی کابینہ میں بھی وزراءکی قلت پیدا ہو جاتی پھر آٹا چینی کی طرح وزراء بھی نایاب ہو جاتے۔
خیر احتساب، انصاف کا یہ جدید دور بھی گزر ہی جائے گا کہ خان صاحب کے یہ درباری رتن اپنی حماقتوں کی کیسی کیسی دلیلیں دیتے ہیں کہ ادویات کی قیمتیں بڑھائیں تو کہیں کہ ادویات کی دستیابی کو یقینی بنانے کے یہ بہترین فیصلہ عوامی مفاد میں کیا گیا ہے۔
عوام مہنگائی کا رونا روتے ہیں تو یہ صاحبانِ اقتدار کہتے ہیں کہ اصل وجہ اپوزیشن اور زیادہ بارش ہے، بقول بلاول بھٹو کے ”زیادہ بارش ہوتا ہے زیادہ پانی آتا ہے“۔ اب حکومت کہتی ہے کہ جتنی زیادہ بارش ہوگی، اتنی ہی مہنگائی آئے گی۔
عوام آٹا چینی کی دہائی دیتے ہیں تو کہتے ہیں یہ مافیاز بہت مضبوط ہیں، گندم کی قلت ہوتی ہے تو اپنے کسانوں کو سہارا دینے کی بجائے بیرون ملک سے مہنگی گندم درآمد کرنے کا حکم دے دیتے ہیں۔
پرانے اور نئے پاکستان میں فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے پیاز کاٹتے وقت آنکھوں میں آنسو آتے تھے اب پیاز خریدتے وقت آنسو آتے ہیں۔ اڑھائی سال میں نئے پاکستان کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ بقول شخصے اب تو کچھ صاحبان سالانہ چند ہ لینے بھی پاکستان نہیں آتے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔