13 اکتوبر ، 2020
پاکستان میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کا مستقبل ہمیشہ ہی خطرے میں رہا ہے، خطرات کا کھیل ایک مرتبہ پھر شروع ہو چکا ہے، جگتو فرنٹ والی پرانی باتیں چھوڑ کر ہم گزشتہ پچاس برسوں کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔
1970کے انتخابات کے نتائج کو کس کس نے قبول نہ کیا، یہ تاریخ کا حصہ ہے، کس نے کس کی اکثریت کو نہ مانا، یہ بھی تاریخ کے اور اق میں محفوظ ہے، اقتدار کی اِس رسہ کشی میں آدھا ملک چلا گیا، اُس کے بعد موجودہ پاکستان کے اقتدار پر بھٹو صاحب براجمان ہوئے، اُنہوں نے بہت کام کیا، چند برسوں میں بہت کچھ کر دیا مگر پھر جمہوریت اور پارلیمنٹ کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔
پیپلز پارٹی کے خلاف نو جماعتی اتحاد بن گیا، قومی اتحاد کی جدوجہد اُس وقت تک جاری رہی جب تک جمہوریت کا خاتمہ نہیں ہو گیا، 11 سال ملک مکمل جمہوریت کے بغیر رہا، اِس غیرجمہوری دور میں کئی نئے لیڈر پیدا ہو گئے، اُن میں سے ایک آج کل جمہوریت کا رکھوالا بنا ہوا ہے۔
مزید وضاحت کے لیے اعجاز الحق کی حالیہ تقریر سنی جا سکتی ہے کہ کون اُن کے ابا جی کے گیت گاتا رہا، کس نے ضیاء الحق کا مشن جاری رکھنے کی باتیں کیں، افلاطونی باتیں کرنے والے شیخ رشید کی بھی سن لیں۔
حال ہی میں شائع ہونے والی اُن کی جس کتاب کا بڑا چرچا ہے، اُس کے ابتدائی صفحات پر غلطی کے ساتھ غفلت بھی ہوئی ہے، 1985میں غیرجماعتی الیکشن ہوئے تھے، پتا نہیں اُن انتخابات میں شیخ رشید نے ن لیگ کا ٹکٹ کیسے لیا؟ اُن انتخابات میں حصہ لینے والے بہت سے لوگ ابھی زندہ ہیں، غیرجماعتی ہونے کی بنیاد پر پیپلز پارٹی نے اُن انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، 1985کے غیرجماعتی انتخابات کے نتیجے میں محمد خان جونیجو وزیراعظم جبکہ نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔
اُس کے کچھ عرصہ بعد ایک تازہ مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی گئی، نواز شریف، چوہدری شجاعت حسین، حامد ناصر چٹھہ، چوہدری نثار علی خان سمیت میاں منظور وٹو سب اُس مسلم لیگ کا حصہ تھے۔ سب محمد خان جونیجو کو سلام کرتے تھے، مسلم لیگ ن تو کہیں بعد میں جونیجو کو دھوکہ دے کر بنائی گئی۔
ضیاء الحق کے بعد 1988میں الیکشن ہوئے تو پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا، صوبائی اسمبلی کے انتخابات تین دن بعد تھے، اِس دوران نواز شریف نے صوبائیت کو ہوا دی اور صوبائی تعصب کی بنیاد پر یہ نعرہ لگا دیا ’’جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوں لگ گیا داگ (داغ)‘‘۔
یہ فلسفہ بھی میاں نواز شریف کو کہیں سے ملا تھا، صوبائی تعصب پر مشتمل نعرے بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جس پنجاب نے قومی اسمبلی کے لئے پیپلز پارٹی کو بھرپور ووٹ دیا تھا۔
اُسی پنجاب نے صوبائی اسمبلی کے لئے نواز شریف کے تعصب بھرے نعرے پر آمین کہا، خیر 1988کے الیکشن نتائج کے بعد محترمہ بےنظیر بھٹو شہید وزیراعظم اور نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔
وزیراعلیٰ پنجاب ہوتے ہوئے نواز شریف نے وزیراعظم کے خلاف سازشوں کا لامتناہی سلسلہ جاری رکھا، محترمہ بےنظیر بھٹو کی حکومت فیض آباد پہنچ کر ختم ہو جاتی تھی، سازشوں کے نتیجے میں بےنظیر بھٹو کی حکومت کو اٹھارہ ماہ بعد ہی ختم کر دیا گیا پھر 1990 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ اسلامی جمہوری اتحاد سے تھا، آئی جے آئی اُنہوں نے ہی بنایا تھا جو اتحاد بنواتے ہیں، آئی جے آئی کے رہنماؤں کو فنڈنگ کہاں سے ہوئی یہ سب کچھ میڈیا میں آ چکا ہے۔
1990کے انتخابات میں جھرلو پھرا اور نواز شریف وزیراعظم بن گئے، پیپلز پارٹی نے دھاندلی پر وائٹ پیپر بھی شائع کیا تھا، پس پردہ کردار ادا کرنے کا خمیازہ ایک صحافی بھگت چکے ہیں، ویسے آپس کی بات ہے، اتحاد بنوانے والے غلام مصطفیٰ جتوئی کو وزیراعظم بنانا چاہتے تھے مگر نواز شریف کو الیکشن مہم میں اس کا پتا چل گیا تھا اس لیے اُنہوں نے اپنے خاص گلو بٹوں کی مدد سے جتوئی صاحب کو میاں چنوں سے واپس بھجوا دیا، 1993ء اور پھر 1996ء میں بھی حکومتیں ختم کی گئیں۔
پھر 1997ء کے آغاز میں مسلم لیگ ن کو اتنی بھاری اکثریت دلوائی گئی کہ پیپلز پارٹی 17 نشستوں پر آ گئی پھر 12 اکتوبر 1999 کو میاں نواز شریف کی امیر المومنین بننے کی خواہش اُنہیں لے ڈوبی۔
جمہوریت پھر غائب ہو گئی، مشرف کا زمانہ آگیا، اِس دوران ق لیگ کا تجربہ بھی ہوا، 2008 کے بعد پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گئی جبکہ پنجاب کا اقتدار ن لیگ کے ہتھے چڑھ گیا، میاں نواز شریف چونکہ جمہوریت کے پرانے خدمتگار ہیں اس لیے وہ خالصتاً جمہوریت کی خدمت کے لیے کالاکوٹ پہن کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ چلے گئے۔
2013 میں الیکشن ہوا تو رات ساڑھے 10 بجے نواز شریف کو اکثریت دے دی گئی وہ پھر سے امیر المومنین بننے کی تیاریوں میں تھے کہ اُن کے خلاف دھرنا ہو گیا، پھر پانامہ آ گیا اور پھر وہ 2018 کے الیکشن ہار گئے، اب عمران خان اِس ملک کے وزیراعظم ہیں اور اُن کے خلاف اتحاد بنوا دیا گیا ہے۔
مہنگائی بھی ہو رہی ہے، اب جمہوریت کی خدمت کے لیے کہا جا رہا ہے کہ ظالم حکومت کے خاتمے تک جدوجہد جاری رہے گی، ہمارے ملک میں پارلیمنٹ اور جمہوریت کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔ بقول نوشی گیلانی ؎
کچھ وصال آخر تک، معتبر نہیں ہوتے
ساتھ چلنے والے بھی ہمسفر نہیں ہوتے
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔