برطانوی رپورٹ: طویل عرصے تک کورونا سے متاثرہ افراد کے 4 سنگین مسائل

—  فائل فوٹو

برطانیہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق "لانگ کووڈ" یعنی طویل مدتی کورونا وائرس لوگوں کو چار مختلف طریقوں سے متاثر کر سکتا ہے۔

گزشتہ ماہ کنگز کالج لندن کے پروفیسر اسپیکٹر کے دیے گئے ڈیٹا میں پہلی بار’لانگ کووڈ‘ اصطلاح کا لفظ استعمال کیا گیا جس سے مراد ایسے افراد ہیں جن میں کورونا وائرس کی علامات دو ہفتے بعد بھی برقرار رہتی ہیں۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ ریسرچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طویل عرصے تک اس وائرس سے متاثر ہونے والے لوگوں پر ایک بڑا نفسیاتی اثر پڑ سکتا ہے۔

عموماً کورونا وائرس کی کم علامات والے مریضوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ دو ہفتوں میں صحتیاب ہو جائیں گے جب کہ شدید علامات والے مریضوں کو صحتیاب ہونے کے لیے درکار وقت تین ہفتے دیا جاتا ہے۔

لیکن رپورٹ کہا گیا ہے کہ صرف برطانیہ میں ہزاروں لوگ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جنہیں کورونا علامات کے ساتھ رہنا پڑ سکتا ہے ۔

واضح رہے کہ اگر اس رپورٹ کو درست تسلیم کیا جائے تو دنیا بھر میں ایسے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہو سکتی ہے۔

طویل المیعاد کورونا وائرس میں مبتلا رہنے والے بعض مریضوں پر کی گئی تحقیق کے مطابق ایسے افراد کو طویل مدت تک سانس لینے میں مشکل، دماغی اور قلبی نظام سے لے کر گردوں، غذائی نالی، جگر اور جلد کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان علامات کی4 وجوہات ہو سکتی ہیں:

دل اور پھیپھڑوں کو پہنچنے والا مستقل نقصان

پوسٹ انٹینسو کیئر سنڈروم (انتہائی نگہداشت کے بعد ایک ساتھ ظاہر ہونے والی متعدد علامات )

پوسٹ وائرل فٹیگ (وبا کے بعد تھکاوٹ کا سنڈروم)

مستقل کورونا علامات

رپورٹ کے مطابق بعض ایسے متاثرہ افراد کووڈ19 کی وجہ سے طویل عرصے تک اسپتالوں میں رہے جب کہ دیگر معمولی علامات والے افراد کا نہ تو ٹیسٹ ہوا اور نہ ہی ان میں اس کی تشخیص ہوئی۔

کچھ لوگوں کے لیے کورونا انفیکشن طویل مدتی بیماری ہے—فائل فوٹو

رپورٹ کے مطابق یہ بات واضح ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے کورونا انفیکشن طویل مدتی بیماری ہے۔

رپورٹ کے مطابق ’ کچھ مریضوں کے لیے اسپتال میں داخلہ بیماری سے بحالی کا ذریعہ بنتا ہے جب کہ دوسرے افراد کا زندگی تبدیل کرنے والے تجربات سے واسطہ پڑتا ہے جس کا ابتدائی مرحلہ تو معتدل علامات کے ساتھ گھر میں مریض باآسانی گزار لیتا ہے جب کہ وقت کے ساتھ ساتھ علامات شدید نوعیت اختیار کرجاتی ہیں۔

رپورٹ تیار کرنے والے مصنف ڈاکٹر ایلین میکس ویل کا کہنا ہے کہ وہ یہ فرض کرسکتے ہیں کہ کوڈو 19 میں شدید علامات رکھنے والےافرادسب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جب کہ دوسری جانب وہ مریض جنہیں کوڈو سے موت کا خطرہ کم رہتا ہے ان میں کووڈ کی دیرپا علامات قائم رہنے کا خطرہ بھی کم پایا جاتا ہے۔

لیکن جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اصل معاملہ یہ نہیں ہے بلکہ اب ہم جان چکے ہیں کہ ایسے افراد بھی موجود ہیں جو کووڈ ریکارڈ نہ رکھنے کے باوجود وینٹی لیٹر پر رہنے والے مریض سے زیادہ تکلیف میں ہیں۔

مزید خبریں :