17 اکتوبر ، 2020
ہمارے علاقے میں ایک نواب صاحب پورے علاقے میں بدزبانی کے لیے مشہور تھے، بات بات پر اپنے گھریلو ملازم کو ماں بہن کی گالی دیا کرتے تھے، پانی اور چائے کا آرڈر دیتے وقت بھی گالی ساتھ ملانا ضروری سمجھتے تھے۔
غریب ملازم اپنی مجبوری کی وجہ سے یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے لیکن ایک دن ان کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور جب نواب صاحب نے گالی دی تو ملازم نے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ کہا کہ بسم اللہ توکلت علی اللہ اور پھر نواب صاحب کو مخاطب کرکے ماں بہن کی گالیاں دینے لگے۔
کئی ماہ سے ان کا دل بھر گیا تھا چنانچہ جتنی گالیاں یاد تھیں، ایک سانس میں دے ڈالیں، اس کے بعد راوی خاموش ہے کہ نواب صاحب کا ردعمل کیا تھا اور انہوں نے ملازم کے ساتھ کیا سلوک کیا۔
لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ یہ میاں نواز شریف اچانک اس حد تک انقلابی کیسے بن گئے تو میں یہ لطیفہ سنا دیتا ہوں، میں انہیں یہی جواب دیتا ہوں کہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق میاں صاحب نے بھی نواب صاحب کے ملازم کی طرح توکل کرکے دل کی بھڑاس تو نکال دی لیکن اب آنے والا وقت بتائے گا کہ دوسرا فریق ان کے ساتھ کیا کرتا ہے؟
خود میاں صاحب کتنی استقامت دکھاتے ہیں اور ان کے کارکن اور عوام کتنا ساتھ دیتے ہیں؟ جہاں تک مولانا فضل الرحمٰن کا تعلق ہے تو وہ توکل کرکے جوابی گالی الیکشن کے بعد سے ہی دے رہے ہیں، اسی طرح بلوچ اور پختون قوم پرست بھی روز اول سے جوابی گالی دے رہے ہیں ۔
پیپلز پارٹی اور اے این پی کی قیادت ابھی برداشت کررہی ہے لیکن وہ بھی توکل کرچکے ہیں البتہ نواب صاحب کو جوابی گالی دینا ابھی شروع نہیں کیا، وہ دونوں ابھی نواب صاحب کے کٹے پر اپنا غصہ نکال رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی کے زیراہتمام اے پی سی سے اپنے خطاب میں میاں نواز شریف نے جس طرح دل جمعی کے ساتھ دل کی بھڑاس نکالی تو اس کے بعد فوری ردعمل یہ دیکھنے میں آیا کہ ان کو الطاف حسین بنانے کی کوششوں کا آغاز ہوا، چنانچہ یہ تجزیہ کرنا ضروری ہے کہ میاں نواز شریف کو الطاف حسین بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟
غور سے دیکھا جائے تو تین چیزیں الطاف حسین اور میاں نواز شریف کے مابین مشترک ہیں، پہلا یہ کہ دونوں کی سیاست جنرل ضیا الحق کے زیر سایہ پروان چڑھی، دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں ایک عرصے تک مقتدر حلقوں کے کارندے رہے لیکن پھر ایک وقت آیا کہ ان کو چیلنج کرنے لگے اور تیسری قدر مشترک یہ ہے کہ الطاف حسین نے بھی لندن کو مرکز بنا کر جنگ چھیڑ دی تھی جبکہ میاں نواز شریف نے بھی لندن کو مورچہ بنا لیا لیکن ان تین مشترکہ اقدار کے باوجود میرے خیال میں دونوں کو ایک دوسرے سے ملانا عقلمندی ہے اور نہ نواز شریف کا وہ حشر کیا جاسکتا ہے جو الطاف حسین کا ہوا کیونکہ کچھ اور حوالوں سے دونوں میں کوئی قدر مشترک نہیں۔
دونوں میں سب سے بڑا اور بنیادی فرق تو یہ ہے کہ الطاف حسین صرف اردو بولنے والوں اور دو شہروں کے لیڈر تھے جبکہ میاں نواز شریف پنجاب سے تعلق رکھنے والے قومی لیڈر ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں یہ بہت بڑا فرق ہے۔
پنجاب کے لیڈر کو غدار بنانا یا پھانسی چڑھانا اتنا آسان ہر گز نہیں جتنا کہ چھوٹی قومیتوں یا چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے سیاسی لیڈروں کو ہوتا ہے، دوسرا بنیادی فرق یہ ہے کہ الطاف حسین کبھی ایک صوبے کے وزیراعلیٰ بھی نہیں رہے جبکہ میاں نواز شریف تین مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں، الطاف حسین کی سیاست کو آگے بڑھانے یا انتقام لینے کے لیے ان کی اولاد پاکستان میں موجود تھی اور نہ شہباز شریف جیسا بھائی میدان میں تھا۔
پانچواں بنیادی فرق یہ ہے کہ الطاف حسین کی سیاست تشدد سے عبارت تھی جبکہ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا تشدد کی سیاست کا کوئی ریکارڈ نہیں، چھٹا فرق یہ ہے کہ الطاف حسین اور ان کے ساتھیوں کے غیرملکی طاقتوں سے روابط زبان زد عام تھے لیکن میاں نواز شریف کا ایسا کوئی ریکارڈ نہیں بلکہ شروع میں پاکستان کے مقتدر حلقوں کی طرف سے ان کو میڈان پاکستان کہا جاتا تھا۔
ساتواں فرق یہ ہے کہ الطاف حسین کے پاس مظلومیت کا کوئی کارڈ نہیں تھا جبکہ ان کا لہجہ نہایت باغیانہ بن گیا تھا جبکہ میاں نواز شریف اور ان کی پارٹی گالم گلوچ کی بجائے اپنا کیس پیش کررہی ہے اور وہ بھی مظلوم بن کر، الطاف حسین کا وہ حشر اس لیے بھی ہوا کہ خود ان کے ساتھی بھی ان کے رویے سے نالاں تھے لیکن میاں نواز شریف کے ساتھ اس وقت جو لوگ کھڑے ہیں، ان کی اپنی سیاسی بقا بھی نواز شریف کی بقا سے نتھی ہے۔
الطاف حسین نے خود کو تنہا کردیا تھا یا پھر حکمت عملی کے تحت ان سے پارٹی کو الگ کردیا گیا لیکن میاں نواز شریف اور پارٹی ایک کشتی کے سوار ہیں۔
اگر الطاف حسین کو بھی تنہا نہ کیا جاتا اور ان کی جماعت کی ساری قیادت کو بھی اگر ان کے ساتھ لپیٹ دیا جاتا تو پھر ان کا یہ حشر کرنا ممکن نہ ہوتا لیکن میاں نواز شریف کے ساتھ ان کی پارٹی کی قیادت کو بھی نتھی کردیا گیا۔
بغاوت کا مقدمہ صرف ان کے خلاف نہیں بلکہ پارٹی کی پوری قیادت کے خلاف درج کیا گیا، ایک اور بنیادی فرق یہ ہے کہ جب الطاف حسین وہ کچھ کررہا تھا اور جواب میں ان کے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا تو باقی ملک میں ان کے حق میں آواز اٹھانے والی کوئی جماعت موجود نہیں تھی لیکن میاں نواز شریف کے ساتھ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے سوا ملک کی باقی تمام جماعتیں کھڑی ہیں۔
ان کو اگر الطاف حسین بنانے کی کوشش کی جائے گی تو مولانا فضل الرحمٰن سے لے کر بلاول بھٹو زرداری تک، اسفندیارولی خان سے لےکر محمود خان اچکزئی تک اور ڈاکٹر مالک سے لےکر سردار اختر مینگل تک ان کے حق میں آواز اٹھائیں گے۔
اپیل: ایک مریض جن کی عمر پچاس سال ہے، گردوں کے مرض میں مبتلا ہیں، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز کے ذریعے انہوں نے رابطہ کیا تھا اور ان سے ان کے حقیقی مستحق ہونے کی تصدیق کی جاسکتی ہے، سفید پوش اور چار بچوں کے باپ ہیں۔
جو کچھ تھا وہ علاج کی نذر کر چکے، ان کی زندگی بچانے کے لئے 35 لاکھ روپوں کی ضرورت ہے، پندرہ لاکھ کا بندوبست وہ خود کرچکے ہیں لیکن 20 لاکھ کی کمی ہے، صاحب خیر اور اہل ثروت میں سے کوئی اس پڑھے لکھے مگر غریب انسان کی زندگی بچانے میں مدد کرنا چاہے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز سے براہ راست رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
اکاؤنٹ نمبر
0112027310074952
United bank Ltd ( UBL)
IBAN no. PK60 UNIL
CiF21403688
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔