Time 19 اکتوبر ، 2020
بلاگ

آگ ہی آگ

فوٹو: فائل 

وزیراعظم نے منہ پر ہاتھ پھیر کر اپوزیشن کو انتہائی دھمکی آمیز لہجے میں کہا ہے کہ اب تمہیں ایک بدلا ہوا عمران خان ملے گا جو نواز شریف کو برطانیہ سے واپس لا کر عام جیل میں ڈالے گا اور آئندہ کسی کے پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں کرے گا۔ 

غصے سے بھرے ہوئے وزیراعظم نے اسلام آباد میں ٹائیگر فورس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کے جلسے میں نواز شریف کی تقریر کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے آرمی چیف پر نہیں بلکہ فوج پر حملہ کیا۔

اُنہوں نے آرمی چیف کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے ہر مشکل میں حکومت کا ساتھ دیا، اُن کی تقریر میں عدلیہ اور نیب سے شکوہ شکایت جھلک رہا تھا کیونکہ اپوزیشن کے کئی رہنما گرفتار تو ہیں لیکن اُنہیں سزائیں نہیں ملیں۔

عمران خان نے کہا کہ اب میں اپنے ماتحت اداروں کے ذریعے چوروں کو پکڑوں گا، اُن کا اشارہ یقیناً ایف آئی اے اور ایف بی آر کی طرف تھا، وزیراعظم عمران خان نے نواز شریف کی ایک ایسی تقریر پر شدید برہمی کا اظہار کیا جو پاکستان کے کسی ٹی وی چینل پر نشر ہی نہیں ہوئی۔ 

پی ڈی ایم کی طرف سے گوجرانوالہ کے بعد کراچی میں بھی جلسہ کیا جا چکا ہے لیکن پوری کی پوری حکومت نواز شریف کی تقریر میں پھنسی ہوئی ہے اور اِس تقریر کا اتنا زیادہ ذکر کیا جا رہا ہے کہ جس نے یہ تقریر نہیں سنی، وہ بھی اِسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سُن رہا ہے، 16؍اکتوبر کی شب نواز شریف نے وڈیو لنک پر اپنی تقریر شروع کی تو اُن کا موضوع مہنگائی تھا۔

جب اُنہوں نے جنرل باجوہ کا ذکر شروع کیا تو مجھے آصف علی زرداری کی وہ تقریر یاد آ گئی جب اُنہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا ذکر کیا تھا اور نواز شریف وزیراعظم تھے، نواز شریف نے اُس تقریر کے بعد آصف علی زرداری کے ساتھ اپنی پہلے سے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی کیونکہ زرداری صاحب نے اپنی تقریر میں راحیل شریف کا نام لئے بغیر اُنہیں اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی لیکن اُس کے بعد تو زرداری صاحب کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور جن مقدمات کو وہ آج کل بھگت رہے ہیں، یہ اُسی زمانے میں بنائے گئے۔ 

نواز شریف صاحب کی گوجرانوالہ میں تقریر سنتے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال بھی آیا کہ وہ جنرل باجوہ پر 2018کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا رہے ہیں لیکن اُن کی جماعت نے 2019میں جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی حمایت کیوں کی؟

عمران خان اور اُن کے وزراء نواز شریف کی تقریر کی مسلسل مذمت کر رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی بھونچال آ گیا ہو، نواز شریف کے کچھ متوالوں کا خیال ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پنجاب کے کسی لیڈر نے ایک حاضر سروس آرمی چیف پر اِس طرح کھل کر تنقید کی ہے، میں اُن متوالوں سے معذرت کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا۔

نواز شریف سے پہلے بھی ایک لیڈر نے اِس سے بڑھ چڑھ کر ایک حاضر سروس آرمی چیف پر تنقید کی تھی، یہ لیڈر بھی نواز شریف کی طرح لاہور میں پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا، اُس نے اپنی پارٹی بھی لاہور میں بنائی اور پہلی انتخابی کامیابی پنجاب کے شہر میانوالی سے حاصل کی۔ 

اُس لیڈر کا نام عمران خان ہے، نواز شریف نے جو کچھ16؍اکتوبر کی شب کہا، وہ سب کچھ عمران خان 2002 سے 2013 کے درمیان ایک دفعہ نہیں، کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں۔

گوجرانوالہ کے جلسے سے اگلے دن وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ نواز شریف کی تقریر کے بعد مسلم لیگ ن پر پابندی لگنی چاہیے، شیخ صاحب یاد رکھیں کہ عدالتوں کے ذریعے مسلم لیگ ن پر پابندی لگوانے کی کوشش کی گئی تو پھر اُن تقریروں کا ذکر بھی آئے گا جو عمران خان نے نواز شریف کے لب و لہجے میں کیں۔ 

تقریروں کو چھوڑیے، عمران خان کی بائیو گرافی کو دیکھ لیں جو 2011ءمیں شائع ہوئی تھی، اُس کتاب کے انگریزی ایڈیشن کے صفحہ 222پر عمران خان نے پاکستان آرمی کے بارے میں جو لکھا ہے، میں اُس کا ذکر مناسب نہیں سمجھتا کیونکہ آج کل پاکستان آرمی کے جوان اور افسران ہر دوسرے دن اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔

میں عمران خان کے الفاظ دہرا کر فوج کی بحیثیت ادارہ توہین نہیں کرنا چاہتا، کتاب کے صفحہ 223پر عمران خان نے آئی ایس آئی کے پولیٹیکل ونگ کے سربراہ میجر جنرل احتشام ضمیر کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا حال لکھا ہے جو عمران خان سے جنرل پرویز مشرف کی حمایت مانگ رہے تھے۔ 

عمران خان نے جنرل مشرف کے ریفرنڈم کی حمایت کر دی جس کے بعد احتشام ضمیر نے تقاضا کیا کہ عمران خان گرینڈ نیشنل الائنس میں شامل ہو جائیں کیونکہ اِسی الائنس نے 2002کا الیکشن لڑ کر مخلوط حکومت بنانا تھی، عمران نے اعتراض کیا کہ آپ نے اِس الائنس میں کئی چور اکٹھے کر لئے ہیں تو احتشام ضمیر نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کے عوام چوروں کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔

آگے چل کر عمران خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں شارٹ ٹرم فائدوں کے لیے لانگ ٹرم فائدوں کو قربان کر دیا جاتا ہے اور یہی ہمارے خفیہ اداروں کی میراث ہے، جنہوں نے ہمیشہ کسی باقاعدہ وسیع البنیاد تجزیے کے بغیر ایسے فیصلے کیے جن سے ملک کو شدید نقصان ہوا۔ 

عمران خان نے صفحہ 223پر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اپنی 23؍جولائی 2002کو ہونے والی ملاقات کا حال لکھا ہے جس میں آئی ایس آئی کے سربراہ بھی موجود تھے،  اِس ملاقات میں مشرف نے اُنہیں اُن سیاستدانوں کے نام بتائے جو آنے والی مخلوط حکومت میں شامل ہوں گے جس پر عمران خان نے مشرف سے کہا کہ اِن کرپٹ لوگوں کے ساتھ حکومت میں شامل ہو کر میں اپنی ساکھ برباد نہیں کر سکتا۔

جواب میں مشرف نے کہا کہ اگر آپ ہمارا اتحاد جائن نہیں کریں گے تو آپ ہار جائیں گے، صفحہ 225پر عمران خان نے لکھا ہے کہ میرے انکار کے بعد آئی ایس آئی نے میرے اُمیدواروں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا اور اُنہیں مسلم لیگ (ق) میں شامل کرانا شروع کر دیا، پوری ریاستی مشینری میرے خلاف کام کر رہی تھی۔ 2007میں جنرل پرویز مشرف نے آئین معطل کیا تو عمران خان وکلاء تحریک میں بہت سرگرم تھے اور اُس تحریک میں اُنہوں نے جنرل مشرف کے بارے میں جو زبان استعمال کی وہ نواز شریف سے زیادہ سخت تھی۔

آج عمران خان وزیراعظم ہیں اور نواز شریف کی طرف سے جنرل باجوہ پر لگائے جانے والے الزامات کی مذمت کر رہے ہیں، چلیں ہم بھی نواز شریف کے الزامات کی مذمت کر دیتے ہیں لیکن کیا عمران خان کی طرف سے جنرل پرویز مشرف اور آئی ایس آئی پر لگائے جانے والے اُن الزامات کی مذمت کی جائے گی جن کا ذکر اُنہوں نے اپنی بائیو گرافی ’’اے پرسنل ہسٹری‘‘ میں کیا ہے؟ 

کتاب کے آخری صفحے پر اُنہوں نے لکھا ہے کہ اب میری پارٹی پاکستان میں وائلڈ فائر یعنی جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکی ہے، مان لیتے ہیں آپ جنگل میں آگ کی طرح پھیل چکے ہیں اور نواز شریف کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ اِس آگ پر پانی ڈالا جائے۔ یہ جنگل ہم سب کا ہے اِس جنگل کو انتقام کی آگ نے جلا ڈالا تو باسی کدھر جائیں گے؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔