پاکستان
Time 23 اکتوبر ، 2020

’نیب مقدمات میں ملزمان کو طویل عرصہ حراست میں رکھنا ناانصافی ہوگی‘

فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران کہا ہےکہ نیب مقدمات میں ملزمان کو طویل عرصہ حراست میں رکھنا ناانصافی ہوگی اور نیب مقدمات میں غیر معمولی تاخیر پر ضمانت کے اصول وضوابط طے ہونے چاہئیں۔ 

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے  آمدن سے زائد اثاثہ جات کے ملزم کی ضمانت کے کیس کی سماعت کی۔

ملزم کے وکیل عابد ساقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کو 16 ماہ سے جیل میں رکھا گیا ہے لیکن کیس شروع نہیں ہوسکا اور کورونا وائرس کے دوران کیس میں کوئی پیش رفت بھی نہیں ہوئی جب کہ 11 کروڑ میں سے 7 کروڑ کے اثاثوں کے ذرائع نیب بھی تسلیم کرتا ہے۔

ملزم کے وکیل کے دلائل پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کرپشن کے الزام پر اتنا طویل عرصہ جیل میں نہیں رکھا جاسکتا، اگرملزم پر کرپشن کا الزام ہے تو جائیداد منجمد اور پاسپورٹ ضبط کیا جاسکتا ہے، عدالت کو بتایا جائے کہ ملزم کو جیل میں رکھنا کیوں ضروری ہے؟ اس مقدمے سے پہلے 80 مقدمات ہیں تو اس ملزم کو اس دوران کیوں بند رکھا جائے، کل چیف جسٹس نے حکم دیا کہ نیب مقدمات میں غیر ضروری التوانہ کیا جائے۔

عدالت نے کہا کہ نیب مقدمات میں غیر معمولی تاخیر پر ضمانت کے اصول وضوابط طے ہونے چاہئیں، نیب مقدمات میں ملزمان کو طویل عرصہ حراست میں رکھنا ناانصافی ہوگی، ملزمان سے معاشرے یا ٹرائل پر اثر انداز ہونے کا خطرہ ہو تو ہی گرفتار رکھا جاسکتا ہے، پرتشدد فوجداری اور وائٹ کالرکرائم کے ملزمان میں فرق کرنا ہوگا۔

سپریم کورٹ نے احتساب عدالت لاہور سے ٹرائل میں تاخیر کی وجوہات طلب کرلیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آگاہ کیا جائے استغاثہ کے تمام 38 گواہان کے بیان کب تک ریکارڈ ہوں گے اور عام طور پر نیب مقدمات میں تاخیر کیوں ہوتی ہے؟ بتایا جائے؟ 

سپریم کورٹ نے احتساب عدالت سے نومبر کے تیسرے ہفتے تک رپورٹ بھی طلب کرلی۔

مزید خبریں :