23 اکتوبر ، 2020
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کا 3 روزہ ورچوئل اجلاس ہوا جس میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
ورچوئل اجلاس کے اختتام پر پریس کانفرنس کی گئی جس میں صدر ایف اے ٹی ایف مارکس پلیئر نے بتایا کہ پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل رہے گا جب کہ پاکستان نے 27 میں سے 21 نکات پر عمل درآمد کیا ہے تاہم پاکستان کو باقی 6 نکات پر عمل درآمد کرنا پڑے گا۔
ان کاکہنا تھا کہ پاکستان فی الحال فروری 2021 تک گرے لسٹ میں رہے گا اور اگلے اجلاس سے پہلے چیک کریں گےکہ پاکستان نے ان نکات پر مؤثر طریقے سے عملدرآمد کررہا ہے یا نہیں۔
صدر ایف اے ٹی ایف کا کہنا تھا کہ جب پاکستان تمام 27 نکات پر عمل درآمد یقینی بنا لے گا تب ایک ٹیم پاکستان کا دروہ کرے گی جس کا مقصد زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔
مارکس پلیئر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے جن 6 نکات پر عمل کرنا ہے، وہ بہت اہم ہیں، حکومت پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ان پرعملدرآمد کرے گی اور پاکستان نکات پرعملدرآمد کے حوالے سے پیشرفت کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 27 نکات پر عمل درآمد کی پیشرفت اوراس کی خواہش پائی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں صدر ایف اے ٹی ایف کا کہنا تھا کہ پاکستان کا نام دہشت گردی کی فناننسنگ سے متعلق ہائی رسک والے ممالک میں ہے اور ایف اے ٹی ایف کے قوانین تمام ممالک کیلئے یکساں ہیں، پاکستان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جارہا۔
اس کے علاوہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے صدر نے بتایا کہ ایران اور شمالی کوریا کا نام بلیک لسٹ میں رہے گا تاہم آئس لینڈ اور منگولیاکا نام گرے لسٹ سے نکال دیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کا نام جون 2018 سے فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔ رواں سال فروری میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو جون تک گرے لسٹ میں ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے ارکان کی تعداد 37 ہے جس میں امریکا، برطانیہ، چین، بھارت اور ترکی سمیت 25 ممالک، خیلج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن شامل ہیں۔
تنظیم کی بنیادی ذمہ داریاں عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہیں۔
عالمی واچ لسٹ میں پاکستان کا نام شامل ہونے سے اسے عالمی امداد، قرضوں اور سرمایہ کاری کی سخت نگرانی سے گزرنا ہوگا جس سے بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور ملکی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل 2012 سے 2015 تک بھی پاکستان ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں شامل تھا۔