29 اکتوبر ، 2020
دنیا میں مرد اور عورت کے علاوہ پیدا کی گئی تیسری جنس جنہیں ہم خواجہ سرا کہتے ہیں بدقسمتی سے معاشرے میں آج بھی کمتر سمجھی جاتی ہے۔
لیکن غربت، لوگوں کی حقارت بھری نظریں، ناقابل برداشت رویے اور نامناسب ناموں سے مخاطب کیا جانا بھی خواجہ سرا نیشا راؤ کے مقصد کے درمیان رکاوٹ نہ بن سکا اور بالآخر نیشا نے پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔
پاکستان کی باہمت، پراعتماد اور نڈر وکیل نیشاراؤ سے ہماری ملاقات گزشتہ دنوں کراچی کے ہولی ٹرینیٹی چرچ میں ہوئی جہاں نیشا کے اعزاز میں ان کی اپنی خواجہ سرا کمیونٹی کی جانب سے ایک چھوٹی سی تقریب رکھی گئی۔
نیشا نے جیو ڈاٹ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ٹرانسپرائڈ سوسائٹی کی صدر بھی ہیں۔ یہ ادارہ کراچی میں خواجہ سرا کمیونٹی کو سماجی،قانونی اور طبی سہولیات فراہم کرنے پر کام کررہا ہے۔
نیشا راؤ کا تعلق لاہور سے ہے اور انہوں نے میٹرک تک کی تعلیم لاہور سے ہی حاصل کی۔
انہوں نے بتایا کہ "میری عمر 28سال ہے۔ جنس کی تیسری صنف کا پتا چلنے پر مجھے میری فیملی کی طرف سے سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث مجھے اپنا گھر جیل خانہ محسوس ہونے لگا اور پھر میں ایک خواجہ سرا دوست کے ہمراہ لاہور سے بھاگ کر کراچی آگئی۔'
کراچی آنے کے بعد نیشا نے محسوس کیا کہ گھر اور خواجہ سرا کمیونٹی میں رہائش میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہاں زندہ رہنے کے لیے خواجہ سراؤں کو یا تو بھیک مانگ کر گزارا کرنا پڑتا ہے یا پھر ناچ گانا شروع کرنا پڑتا ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کو ملازمتیں نہیں دی جاتی نہ ہی ان کو کوئی اپنے ساتھ رکھنے پر تیار ہوتا ہے۔
نیشا کا کہنا ہے کہ مجبوراً ہی سہی مجھے بھی 10سال بھیک مانگنی پڑی لیکن بھیک مانگنا مجھے گوارا نہ تھا کیونکہ مجھے محسوس ہوتا تھا کہ بھیک مانگنا میری عزت میں کمی کا باعث ہے۔
'بطور خواجہ سرا ہی سہی لیکن ہم بھی معاشرے میں اتنی ہی عزت اور مقام کے حقدار ہیں جتنا کہ کوئی دوسری صنف، چنانچہ میں نے چھوڑی ہوئی تعلیم کا سلسلہ ایک بار پھر جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔'
نیشا نے بتایا کہ انھوں نے بھیک کے پیسوں سے ہی کالج میں ایڈمیشن لیا، کالج سے انٹر، بی اے کرنے کے بعد قانون کی ڈگری کے حصول کے لیے سندھ مسلم لاء کالج پہنچ گئی اور 2018 میں، اسی کالج سے قانون کی ڈگری مکمل کی۔
نیشا کا کہنا ہے کہ وہ اب تک خواجہ سرا کمیونٹی کے 50سے زائد کیسز لڑ چکی ہیں۔
پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل بننے کا اعزاز رکھنے والی نیشا انٹرویو کے دوران سوسائٹی اور حکومت کی جانب سے خواجہ سراؤں کو کسی قسم کا تعاون اور فنڈنگ نہ ملنے کے باعث افسردہ سی بھی نظر آئیں۔
نیشا نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ قومی بجٹ میں خواجہ سراؤں کے تعلیم و صحت کے حوالے سے بھی فنڈز مقرر کیے جائیں تاکہ ایسے خواجہ سرا جو پڑھ لکھ کر باعزت مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں، انھیں مجبوری میں بھی بھیک نہ مانگنی پڑی۔
نیشا نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے وکیل بننے کا فیصلہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے وژن سے متاثر ہوکر کیا۔ 'جس طرح قائداعظم نے بحیثیت وکیل سخت محنت کرکے مسلمانوں کو ان کے حقوق دلوائے میں بھی خواجہ سرا کمیونٹی کو اس معاشرے میں باعزت مقام دلوانے کی خواہشمند ہوں۔'
نیشا کا کہنا ہے کہ وکالت کے اس سفر میں کامیابی کی اصل وجہ ان کے استاد مدثر اقبال چوہدری کی رہنمائی بھی ہے۔
نیشا کے مطابق مدثر اقبال نے ہی انہیں مشورہ دیا پولیس والوں اور لوگوں کے نامناسب سلوک سے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے وکالت کی ڈگری حاصل کرنی چاہیے تاکہ میں لوگوں سے نہ ڈروں بلکہ لوگ مجھ سے ڈریں۔
شعبہ وکالت کے انتخاب کے لیے نیشا کی رہنمائی کرنے والے پروفیسر مدثر اقبال چوہدری سے جب ہم نے نیشا سے متعلق بات کی تو ان کا کہنا تھاکہ نیشا اپنی برادری کے لیے ہی نہیں ہم سب کے لیے ایک مثال ہے۔
'میں پرُامید ہوں کہ نیشا کی کامیابی صرف پاکستان کی پہلی خواجہ سرا وکیل تک ہی محدود نہ رہے بلکہ نیشا انشاء اللہ جلد ہی پاکستان کی پہلی خواجہ سرا جج کے عہدے پر بھی فائز ہوں گی۔'
نیشا نے دوران انٹرویو زندگی میں پیش آنے والے تلخ تجربے سے بھی آگاہ کیا اور بتایا کہ ان کی خواجہ سرا دوست نے گھر اور معاشرے کے ناروا سلوک سے تنگ آکر زہر پی لیا تھا۔
نیشا کو آج بھی افسوس ہے کہ وہ اپنی عزیز دوست کے لیے کچھ نہ کر سکی تھی لیکن نیشا آج وکیل بن جانے کے بعد اپنی کمیونٹی کے دیگر خواجہ سراؤں کو معاشرے میں باعزت مقام دلانے کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے پر آمادہ ہیں۔
جس کے لیے نیشا معاشرے میں خواجہ سراؤں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے کام کررہی ہیں نیشا کا خواب ہے وہ ملک کے خواجہ سراؤں کے لیے ووکیشنل ٹریننگ سینٹر قائم کریں ساتھ ہی ایسی ہیلپ لائن کا بھی آغاز کریں جہاں خواجہ سراؤں کو جنسی ہراسانی کی صورت فوری مدد فراہم کی جاسکے۔؎
اور جب ہم نے نیشا کی کامیابی پر ساتھی خواجہ سراؤں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ کہ نیشا کے حوصلے بلند ہیں اور ہمیں اپنی قابل ساتھی پر فخر ہے جس کے باعث آج ہمارے بہت سے کام آسان ہوگئے ہیں،کیونکہ ان کاموں کا نیشا کے وکیل بننے سے قبل پورا ہونا خاصا مشکل تھا۔