Time 25 اکتوبر ، 2020
بلاگ

کراچی کا واقعہ اور خطرے کی گھنٹی

فوٹو: فائل 

حکومت جس طرح اپوزیشن کے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کی تحریک کا مقابلہ کر رہی ہے، اس سے نہ صرف پاکستان کے سیاسی نظام کو نقصان پہنچے گا بلکہ ریاست اور اداروں پر بھی اس کے نقصان دہ اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت اپوزیشن کی تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے دیگر سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل کرنے کی بجائے اداروں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 

پی ڈی ایم نے جمعہ 16 اکتوبر 2020 ء کو پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا، پھر دو دن بعد اتوار 18 اکتوبر کو سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی توقع سے زیادہ لوگوں کو جمع کرکے تاریخی جلسہ عام کا انعقاد کیا۔

لوگ ابھی اس جلسے کے سیاسی اثرات کا جائزہ ہی لے رہے تھے کہ دوسرے دن یعنی 19 اکتوبر کی صبح ایک غیر معمولی اور ڈرامائی صورت حال پیدا ہو گئی، جب سندھ پولیس کی ایک ٹیم نے ایک فائیو اسٹار ہوٹل کے 15 ویں فلور پر ایک کمرے کا دروازہ توڑا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی سینئر نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کر لیا۔ 

مریم صفدر بھی اس وقت کمرے میں موجود تھیں، پوری دنیا سندھ پولیس کی اس کارروائی پر حیرت زدہ رہ گئی کیونکہ کسی کو یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ سندھ پولیس پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے ماتحت ہے اور پیپلز پارٹی اپنے اتحادیوں اور مہمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کرے گی؟ 

کچھ ہی دیر بعد یہ حیرت اور اُلجھن اس وقت ختم ہوئی، جب سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما محمد زبیر نے میڈیا کو بتایا کہ آئی جی سندھ مشاق مہر اور اے آئی جی کراچی غلام نبی میمن کو رینجرز کے دفتر میں رات کو بلایا گیا اور بقول محمد زبیر انہیں یرغمال بنا کر یہ کارروائی کرنے پر مجبور کیا گیا، اس واقعہ کی بعدازاں مریم نواز اور دیگر نے بھی تصدیق کی۔

یہ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ تھا، جس پر پاکستان کی مخالف قوتوں نے دنیا بھر میں پاکستان کا تماشا بنایا اور دنیا کو یہ باور کرایا کہ 21ویں صدی میں بھی پاکستان میں معاملات اس طرح چلتے ہیں۔ 

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے 5 رُکنی وزارتی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیالیکن پولیس افسران کا غم و غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا، بہت بڑی تعداد میں پولیس افسروں نے ردعمل میں طویل چھٹیوں کی درخواستیں دے دیں۔ 

اس پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو میدان میں آنا پڑا، اُنہوں نے آرمی چیف سے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعہ کی فوری تحقیقات کرائیں، یہ خوش آئند بات ہے کہ آرمی چیف نے واقعہ کی فوری تحقیقات کا اعلان کیا اور اس سے حالات نہ صرف معمول پر آگئے بلکہ اداروں کے مابین محاذ آرائی کا جو تاثر پیدا ہوا، وہ بھی زائل کرنے میں مدد ملی۔

کراچی میں کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے واقعہ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے کس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے اور وہ اس طرح اداروں کے پیچھے چھپ کر انہیں سیاست میں گھسیٹ رہی ہے۔ 

پی ٹی آئی کو اندازہ نہیں ہے کہ اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے حالات کا ادراک کرے اور ماضی کے واقعات سے سبق سیکھے۔ 

پی ٹی آئی اس امر کا اعتراف کر چکی ہے کہ مہنگائی بہت بڑا مسئلہ ہے، جو اس کی حکومت کو درپیش ہ،۔ اس اعتراف کی مزید تفہیم کی ضرورت ہے، مہنگائی نے پی ٹی آئی کی سیاسی مقبولیت پر اثر ڈالا ہے، مہنگائی نے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو عوام کے قریب کر دیا ہے، پی ٹی آئی کی قیادت کو پی ڈی ایم کی ترکیب کو بھی سمجھنا چاہیے۔ 

پی ڈی ایم میں پاکستان کے تمام صوبوں اور علاقوں میں بہت زیادہ سیاسی اثر ورسوخ کی حامل سیاسی جماعتیں شامل ہیں، پیپلز پارٹی ایک ملک گیر سیاسی جماعت ہے لیکن سندھ میں اس کا سیاسی مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) بھی ایک ملک گیر جماعت ہے تاہم پنجاب میں اب اس کا پی ٹی آئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتی ہے۔ 

جمعیت علمائے اسلام (ف) بھی ملک گیر مذہبی سیاسی جماعت ہے اور ملک کے ہر کونے میں اس کے پاس اسٹریٹ پاور ہے، جمعیت علمائے اسلام (ف) کی بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیاسی جڑیں بہت گہری ہیں، خیبر پختونخوا کی سیاست میں بہت موثر اور تاریخی کردار ادا کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی بھی پی ڈی ایم میں شامل ہے۔ 

خیبر پختونخوا اور اس میں ضم ہونے والے قبائلی علاقہ جات کی موثر آواز رکھنے والی پختون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) بھی پی ڈی ایم کا حصہ ہے، خیبرپختونخوا کی ایک اور موثر سیاسی جماعت آفتاب احمد شیر پاؤ کی قومی وطن پارٹی بھی اپوزیشن اتحاد میں شامل ہے۔ 

اس طرح پنجاب اور سندھ کے بعد خیبر پختونخوا میں مضبوط جڑیں رکھنے والی سیاسی جماعتیں پی ڈی ایم کی طاقت بنی ہوئی ہیں، باقی رہا بلوچستان تو وہاں کی بھی موثر سیاسی جماعتیں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، غوث بخش بزنجو مرحوم کی نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کی پختون خوا ملی عوامی پارٹی بھی پی ڈی ایم کا حصہ ہیں۔

اس کے برعکس پی ٹی آئی کو کسی موثر سیاسی یا مذہبی جماعت کی حمایت حاصل نہیں ہے، جو سیاسی یا مذہبی جماعتیں پی ٹی آئی حکومت کی پی ڈی ایم کی طرح مخالف نہیں ہیں، وہ بھی حمایت میں آنے کے لیے تیار نہیں۔ 

پی ٹی آئی اس وقت سیاسی تنہائی اور عوام میں گرتی ہوئی مقبولیت کا شکار ہے، اسے پی ڈی ایم کی بڑی سیاسی تحریک کا مقابلہ کرنا ہے، جو کئی حوالوں سے ماضی کی تحریکوں سے بہت مختلف ہے اور اس کا بیانیہ بہت زیادہ سیاسی ہے۔ 

پی ڈی ایم کی تحریک کا مقابلہ کرنے کے لیے پی ٹی آئی کی قیادت کو احتیاط سے کام لینا ہوگا، اگر کراچی جیسے واقعہ میں اداروں کو استعمال کرنے کی اس طرح کی کوششیں جاری رہیں تو نہ صرف اداروں کی ساکھ کو نقصان ہوگا بلکہ سیاسی نظام کے لیے بھی خطرات پیدا ہوں گے۔ 

پی ٹی آئی کی قیادت کو اس بات کا بھی ادراک کرنا ہو گا کہ حکومت بنانا آسان ہے اور سیاسی تحریک کے مقابلے میں حکومت کو لانا بہت زیادہ پیچیدہ اور خطرات والا کام ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔