26 اکتوبر ، 2020
کیا ڈکٹیٹر اور آمر دو مختلف الفاظ ہیں؟ اُردو زبان بولنے، پڑھنے اور لکھنے والے اکثر مہربان ڈکٹیٹر اور آمر کا لفظ ایک ہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں لیکن معروف قانون دان جناب ایس ایم ظفر کا کہنا ہے کہ آمر کا لفظ ڈکٹیٹر کے متبادل کے طور پر استعمال نہیں ہو سکتا۔
لغت میں آمر کی تعریف یہ ہے کہ ایسا حاکم جو حکم دیتا ہے، ڈکٹیٹر کی تعریف یہ ہے کہ ایسا مطلق العنان حاکم جس کی زبان سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون ہوتا ہے، بادی النظر میں ایک آمر اور ڈکٹیٹر میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا تاہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حکم دینے والا ہر شخص آمر تو کہلا سکتا ہے مگر ڈکٹیٹر نہیں ہو سکتا کیونکہ ہر ڈکٹیٹر خدائی اختیارات رکھنے کے زعم میں مبتلا ہوتا ہے۔
ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی مشہور کتاب ’ڈکٹیٹر کون؟‘ میں لکھا ہے کہ اُردو زبان میں ڈکٹیٹر کے لفظ کا کوئی متبادل لفظ موجود ہی نہیں اِس لیے ڈکٹیٹر کو ڈکٹیٹر کہا جائے، آمر نہ کہا جائے اور اُردو زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کو یہ زبان آسانی سے اپنے دامن میں سمیٹ لیتی ہے۔
محمود خان اچکزئی سے اختر مینگل تک اور بلاول بھٹو زرداری سے مریم نواز تک، کوئی کسی بھی لہجے میں کراچی میں تقریر کرے یا کوئٹہ میں، پاکستان کے ہر گلی اور محلے میں اُن کا پیغام پہنچ جاتا ہے۔
ایس ایم ظفر صاحب نے اپنی کتاب میں ڈکٹیٹروں کی مختلف اقسام بیان کی ہیں، ڈکٹیٹر صرف غیرجمہوری نہیں بلکہ جمہوری بھی ہوتے ہیں، اُنہوں نے مسولینی، ہٹلر، اسٹالن کے ساتھ ساتھ جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو بھی ڈکٹیٹروں میں شامل کیا ہے۔
آپ ایس ایم ظفر سے اختلاف کا حق رکھتے ہیں لیکن جب کسی جمہوری دور کو ڈکٹیٹر شپ قرار دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو اُس کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے، ایس ایم ظفر صاحب کی یہ کتاب پہلی دفعہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں شائع ہوئی۔
اُنہوں نے اپنی کتاب میں ایوب خان پر بھی تنقید کی جن کی حکومت میں وہ خود وزیرِ قانون تھے اور بھٹو پر بھی تنقید کی جو ایوب خان کے وزیر خارجہ تھے، ایس ایم ظفر صاحب نے لکھا ہے کہ ڈکٹیٹر شپ کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ حکمران سیاسی ہو یا غیرسیاسی، فوجی ہو یا غیرفوجی، اُس کے ساتھی وفادار سے زیادہ اطاعت شعار ہوتے ہیں۔
ڈکٹیٹر اپنے ساتھیوں کو کٹھ پتلیوں کی طرح استعمال کرکے پھینکتا چلا جاتا ہے کیونکہ اُس کے نزدیک اپنے ساتھیوں کی عزتِ نفس بالکل اہم نہیں ہوتی، ڈکٹیٹر شپ سیاسی ہو یا غیرسیاسی، اُس کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ آزادیٔ اظہار پر حملے کیے جاتے ہیں، عدلیہ کی خود مختاری برداشت نہیں کی جاتی، وزیرِ اطلاعات صبح شام جھوٹ بولتا ہے اور لاپتا ہونے والوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔
اِس کتاب کے ایک باب کا عنوان ہے: ’’آل پاکستان ڈرپوک سوسائٹی‘‘، ایک اور باب کا عنوان ہے ’’جے جے یو این‘‘ اور جے جے یو این کا مطلب ہے جیہڑا جِتّے اوہدے نال (جو جیتے اُس کے ساتھ)۔
اِس باب میں ایس ایم ظفر صاحب نے اُردو زبان کی وسعت کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ ٹیلی ویژن، کنفیوژن، ایئر پورٹ، سینیٹ اور مارشل لاء غیرزبانوں کے الفاظ ہیں لیکن مارشل لاء سے جتنا اُردو والے واقف ہیں شاید ہی کوئی اور ہو، پھر اُنہوں نے پی پی پی اور جے یو پی کا ذکر کیا اور بتایا کہ اِن الفاظ کا فوری طور پر مطلب سمجھ آ جاتا ہے، اسی طرح جے جے یو این کا مطلب بھی فوری طور پر سمجھ آ جاتا ہے، ڈکٹیٹر شپ کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ اُس دور میں جے جے یو این والے حکمران کو گھیر لیتے ہیں۔
ایس ایم ظفر کی کتاب ’ڈکٹیٹر کون؟‘ کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ اِس کے ہر باب میں موضوع کی مناسبت سے ایک کارٹون بھی شامل کیا گیا، یہ کارٹون جناب یوسف لودھی نے بنائے تھے، یوسف لودھی صاحب کارٹونسٹ بھی تھے اور کالم نگار بھی۔
1972 میں اُنہوں نے فرنٹیئر گارڈن پشاور میں ایک کالم لکھا جس میں بڑے لطیف پیرائے میں کہا کہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے چیف سیکرٹری کا مکان اپنی رہائش کے لیے الاٹ کرا لیا ہے جس کے بعد چیف سیکرٹری اعجاز نائیک بےگھر ہو گئے ہیں۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس صفدر شاہ نے یوسف لودھی کو توہینِ عدالت کا نوٹس دیا، پہلی سماعت پر بیرسٹر مسعود کوثر اُن کے وکیل تھے، بعد ازاں اُنہوں نے معذرت کر لی، پھر افتخار گیلانی اُن کے وکیل بنے اور بعد میں معذرت کر لی، پھر بیرسٹر ظہور الحق آئے اور چلے گئے۔
یوسف لودھی کو وکیل نہیں مل رہا تھا، میم شین (میاں محمد شفیع) نے نوائے وقت میں یوسف لودھی کے بارے میں کالم لکھا تو ایس ایم ظفر نے اُن سے رابطہ کیا اور مبلغ ایک روپیہ فیس کے عوض اُن کا مقدمہ لڑنے کی پیشکش کی، جسٹس صفدر شاہ نے یوسف لودھی کی معافی قبول نہ کی اور اُنہیں چھ ماہ قید کی سزا سنا دی۔
ایس ایم ظفر نے یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرا دیا، جسٹس صفدر شاہ بعد ازاں سپریم کورٹ کے جج بنے، وہ اُس بنچ میں شامل تھے جس کی اکثریت نے ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی سزا قائم رکھی تھی۔
جسٹس صفدر شاہ نے پھانسی کے فیصلے سے اختلاف کیا تو اُن کے پیچھے ایف آئی اے لگا دی گئی، اُن پر اپنی تاریخِ پیدائش تبدیل کرنے کا الزام لگا کر سپریم جوڈیشل کونسل کو مقدمہ بھیج دیا گیا جس کے بعد اُنہوں نے استعفیٰ دے دیا اور بیرونِ ملک چلے گئے۔
ایس ایم ظفر صاحب کی کتاب کے مطالعے کے دوران ذہن میں جسٹس اخلاق حسین کا نام بھی آتا ہے جن پر جنرل ایوب خان کے دور میں غلط انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرنے کا الزام لگایا گیا اور کبھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام آتا ہے جن پر بیرونِ ملک جائیدادیں چھپانے کا الزام لگایا گیا۔
ججوں کو دبانے کے لیے جو الزامات جنرل ایوب خان نے لگائے، وہی الزامات آج دہرائے جارہے ہیں، یہ الزامات لگانے والے پرویز مشرف کے دور میں بھی جے جے یو این میں شامل تھے اور عمران خان کے دور میں بھی جے جے یو این کا حصہ ہیں۔
عجیب بات یہ ہے کہ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو لاپتا کرنے کا سلسلہ بھی جنرل ایوب خان کے دور میں شروع ہوا اور موجودہ دور میں جب مطیع اللہ جان اور علی عمران سید جیسے صحافی غائب ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ جمہوریت نہیں، ڈکٹیٹر شپ ہے۔
ایس ایم ظفر کے برخوردار علی ظفر آج کل تحریک انصاف میں شامل ہیں، اُنہیں چاہیے کہ اپنے والد کی کتاب ’ڈکٹیٹر کون؟‘ اپنے قائدِ محترم عمران خان کو مطالعے کے لیے ضرور دیں تاکہ وہ اپنے اردگرد جے جے یو این تلاش کریں۔
اِس کتاب کا اختتام ’’جے جے یو این زندہ باد‘‘ کے نعرے پر ہوتا ہے لیکن پاکستان بدل رہا ہے، پاکستان کی بقاء ’’جے جے یو این مردہ باد‘‘ کے نعرے سے مشروط ہے اور جب یہ نعرہ حقیقت بنے گا تو پاکستان میں حقیقی جمہوریت آ جائے گی۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔