Time 26 اکتوبر ، 2020
بلاگ

اسلام دشمنی میں فرانس نے حدیں پار کر دیں

فوٹو: فائل 

فرانس ایک بار پھر اسلام دشمنی میں حدیں پار کر گیا، فرانس میں گستاخانہ خاکوں کو پہلے اخبارات میں شائع کیا جاتا رہا اور اب اُن خاکوں کو سرکاری عمارتوں پر دکھایا گیا اور اِس گھناؤنے کھیل میں فرانسیسی صدر میکرون بھی شامل تھا جس کے بارے میں ترک صدر اردوان نے بہت درست کہا کہ میکرون کو اپنے دماغ کا علاج کروانا چاہیے۔

میرا تو ماننا ہے کہ اسلام کے خلاف بغض اور دشمنی میں وہ پاگل ہو چکا ہے، گستاخانہ خاکوں کو سرکاری عمارتوں پر دکھانے کی پشت پناہی تو میکرون نے کی لیکن یہ کام کرنے والا وہی چارلی ہیبڈو میگزین ہے جو کئی برسوں سے اِسی ناپاک کام میں لگا ہوا ہے، باوجود اِس کے کہ چارلی ہیبڈو پر چند مسلمان نوجوانوں کی طرف سے کوئی چار پانچ سال پہلے ایک بڑا حملہ بھی ہوا اور اِس میگزین کے عملے سمیت 12افراد ہلاک ہوئے۔

اُس وقت کے مسیحی مذہبی رہنما اور پوپ تک نے چارلی ہیبڈو پر حملے کے واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کچھ ایسا کہا تھا کہ اگر آپ کسی کی ماں کو بُرا بھلا یا گالی دیں گے تو جواب میں آپ کے چہرے پر مکا تو رسید ہوگا لیکن اِس کے باوجود چارلی ہیبڈو اور فرانس باز نہ آئے اور یہ قابلِ مذمت اقدام جس سے مسلمانوں کی شدید دل آزاری ہوتی ہے، جاری رہا۔

چند ہفتے قبل فرانس میں رہنے والے ایک پاکستانی نوجوان نے گستاخانہ خاکہ شائع کرنے پر چاکو سے حملہ کرکے چارلی ہیبڈو کے چند ایک کارکنوں کو زخمی کر دیا، حال ہی میں فرانس ہی میں رہنے والا ایک چیچن مسلمان لڑکے، جس کی عمر کوئی 15-16سال تھی، نے اپنے سکول کے اُس استاد کو قتل کر دیا جس نے کلاس روم میں اپنے طالب علموں کو گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

اِس کے باوجود فرانس یہ بنیادی نکتہ سمجھنے سے قاصر رہا کہ مسلمان گستاخی کے عمل کو کسی طور برداشت نہیں کر سکتے اور اِس کی وجہ سے کوئی بھی مسلمان قانون اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے اور اب گستاخی کے عمل میں مزید آگے بڑھتے ہوئے فرانس کی سرکاری بلڈنگ میں گستاخانہ خاکے دکھائے گئے جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں کے دل دکھے، اُنہیں اِس عمل پر شدید صدمہ پہنچا۔ یہ واقعہ کوئی تین دن پہلے کا ہے اور گزشتہ دو روز سے سوشل میڈیا پر اِس کی بھرپور مذمت کی جا رہی ہے۔

ایک طرف اگر ترکی کے صدر اردوان نے اِس گستاخانہ عمل کی بھرپور مذمت کی تو دوسری طرف کویت اُن مسلمان ممالک میں سر فہرست ہے جہاں احتجاج کے طور پر فرانس کی مصنوعات اور کھانے پینے کی اشیاء کا بائیکاٹ کر دیا گیا اور سٹوروں سے فرانس کی پروڈکٹس کو اُٹھا دیا گیا ہے۔

اتوار کے روز دوپہر کے وقت وزیراعظم عمران خان کی طرف سے کافی انتظار کے بعد ایک بیان ٹویٹر کے ذریعے سامنے آیا جس میں اُنہوں نے فرانسیسی صدر کی اِس جاہلانہ حرکت کے حوالے سے کہا کہ اِس گستاخی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچائی۔

میں تو توقع کر رہا تھا کہ عمران خان، جو مغرب کے اِس رویے کے خلاف پہلے بھی بولتے رہے ہیں(جو خوش آئند بات ہے)، اِس بار فرانسیسی اشیاء اور مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کریں گے اور فرانس کے پاکستان میں متعین سفیر کو احتجاجاً پاکستان چھوڑنے کا حکم دیں گے لیکن ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا، ہو سکتا ہے آئندہ چند دنوں میں کوئی ایسا ردِعمل حکومت کی طرف سے سامنے آ جائے جس کا پاکستان کے عوام کو شدت سے انتظار رہے گا۔

گزشتہ روز سے پاکستان کے سوشل میڈیا پر اِس معاملے پر کافی احتجاج ہو رہا ہے لیکن افسوس کہ پاکستان کے اہم سیاسی رہنماؤں میں صرف امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کی طرف سے ہی اِس گستاخی پر احتجاج کیا گیا۔ 

میں نے گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان، نواز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو وغیرہ سے اپنے ٹویٹ کے ذریعے درخواست کی کہ اِس معاملےپر بھی سوشل میڈیا پر کوئی بات کر لیں کیونکہ جب ہمارے حکمران اور سیاسی رہنما احتجاج میں اپنی آواز بلند کریں گے تو عوام کے احساسات کی اِس طرح بہترین نمائندگی ہو سکے گی اور پُرامن اور بااثر احتجاج جس طرح کویت نے کیا، یہاں زور پکڑے گا۔

لیکن ابھی تک (جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں) ماسوائے وزیراعظم اور مریم نواز کے، جنہوں نے کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا جلسہ فرانس کے اِسی اسلام دشمن رویے کی مذمت سے شروع کیا، کسی دوسرے رہنما کی طرف سے کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ 

تادمِ تحریر کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا جلسہ جاری ہے، میں اُمید کرتا ہوں کہ اِس جلسے میں مولانا فضل الرحمٰن اور پی ڈی ایم کے دوسرے ارکان کی طرف سے اِس معاملے کی نہ صرف مذمت کی جائے گی بلکہ اِس حوالے سے قرارداد بھی پیش کی جائے گی۔

ہو سکتا ہے کچھ دیر میں یا ایک آدھ دن میں ہمارے رہنما اِس معاملے پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا دیں لیکن مجھے اِس بات کا افسوس ضرور ہے کہ کراچی میں مزارِ قائد پر کیپٹن صفدر کی طرف سے نعرے لگانے پر تو سب سیاسی رہنما بیانات پر بیانات دیتے رہے لیکن فرانس کی گستاخی اور اسلام دشمنی پر وہ ابھی تک نہیں بولے۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہیں فرانس کی تازہ اسلام دشمنی کا علم ہی نہ ہو۔

کوئی ہے جو ہمارے سیاسی رہنماؤں کو خبر دے کہ فرانس نے کیا ظلم کیا؟ کوئی اُن کو بتائے کہ ترکی کے صدر اردوان بھی سیاستدان ہیں لیکن کس جرأت کے ساتھ وہ مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جو حال ہمارے سیاستدانوں کا ہے، کچھ یہی حال اسلامی دنیا کے اکثر سربراہان کا بھی ہے اور یہ آج کے مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔