28 اکتوبر ، 2020
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قلب میں 352؍ ایکڑ پر مشتمل زمین کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جسے 53؍ سال قبل لیز دی گئی تھی۔ اس زمین پر اسلام آباد کلب قائم ہے جہاں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ سماجی سرگرمیوں کے ساتھ یہ کلب تجارتی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اتنا بڑا کلب قومی خزانے کو کتنا کرایہ دیتا ہے؟ ماہانہ تین روپے فی ایکڑ۔ سرکاری وسائل کا یہ مفت استعمال تو اپنی جگہ لیکن جب ایک شہری نے معلومات تک رسائی کے قانون (رائٹ آف ایکسس ٹو انفارمیشن ایکٹ) کے تحت درخواست دائر کرکے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کلب کے گزشتہ پانچ سال کے دوران مالی آڈٹ کی صورتحال، کلب کی پراپرٹیز اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی، رجسٹرڈ ارکان کی تعداد اور کھیلے جانے والے کھیلوں کے نام کیا ہیں تو اس شاندار کلب کا کہنا تھا کہ وہ عوام کو جوابدہ نہیں ہے۔
جب آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بتایا کہ یہ کلب قوائد کی خلاف ورزی میں ملوث ہے تو ایک درخواست گزار ندیم عمر نے معلومات کے حصول کے لیے درخواست دائر کی۔ صورتحال یہ ہے کہ کلب انتظامیہ نے آڈٹ ٹیم کو بھی معلومات فراہم نہیں کیں۔ گزشتہ سال شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، متعدد تحریری اور زبانی درخواستوں کے باوجود، اسلام آباد کلب کی انتظامیہ نے مطلوبہ ریکارڈ نہیں دیا۔
اسلام آباد کلب کی سالانہ لیز کی رقم 14؍ ہزار 700؍ روپے جبکہ پولو گرائونڈ کی لیز کی رقم سالانہ 12؍ ہزار 300؍ روپے ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کلب اور پولو گرائونڈ دو علیحدہ زمینیں ہیں۔
معلومات اور دستاویزات کی عدم فراہمی کی وجہ سے رکنیت دینے کی شرائط کا آزاد جائزہ لیا جا سکا۔ یہ کلب ایس ای سی پی کے قوائد پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی یہ کلب اپنے ارکان کو جوابدہ ہے۔ ریگولر سرکاری اداروں میں جن نگران اور احتساب کے اداروں (پبلک اکائونٹس کمیٹی یا پرنسپل اکائونٹنگ افسر) کا اطلاق ہوتا ہے وہ یہاں موجود ہیں اور نہ ہی ان پر عمل ہوتا ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی تھی کہ کلب کے لیے ایک مناسب نگران میکنزم تشکیل دیا جائے۔
تاہم، آڈٹ رپورٹ میں کرایہ داری کے حوالے سے کوئی معلومات موجود نہیں تھیں۔ یہ بات اس وقت سامنے آئی جب ندیم نے کلب کی جانب سے معلومات فراہم نہ کرنے پر پاکستان انفارمیشن کمیشن (پی آئی سی) کلب کیخلاف رجوع کیا۔
جب پی آئی سی نے کلب انتظامیہ کو انکار کی وجہ جاننے کے لیے طلب کیا تو کلب کے منتظم سردار احمد نواز سکھیرا کی جانب سے جواب داخل کیا گیا۔ وہ کابینہ سیکریٹری بھی ہیں۔ اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ منتظم اور انتظامی کمیٹی کو وفاقی حکومت مقرر کرتی ہے لیکن ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ کلب کے فنڈز ممبرشپ سے پیدا کیے جاتے ہیں لہذا اس میں عوام کا پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔
مزید برآں، درخواست گزار کلب کا رکن نہیں لہٰذا اس کے پاس معلومات حاصل کرنے کا اختیار بھی نہیں۔ جب پی آئی سی نے کلب سے حکومت سے ملنے والے فنڈز کے متعلق سوال کیا تو بتایا گیا کہ سی ڈی اے نے کلب کو زمین کی لیز دی تھی اور لیز کی رقم سالانہ بنیادوں پر وصول کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ اسلام آباد کلب کی سالانہ لیز کی رقم 14؍ ہزار 700؍ روپے جبکہ پولو گرائونڈ کی لیز کی رقم سالانہ 12؍ ہزار 300؍ روپے ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کلب اور پولو گرائونڈ دو علیحدہ زمینیں ہیں۔
ممبرشپ دینے کے معاملے میں بھی کوئی شفافیت نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کے افسران اور سفارت کاروں کے لیے قائم کیا جانے والا کلب اب سات کیٹگریز میں رکنیت دیتا ہے جو آڈٹ رپورٹ کے مطابق بلاجواز ہے۔
کلب کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی زمین 352؍ ایکڑ پر مشتمل ہے جس کا مطلب ہوا کہ کلب والے زمین کا ماہانہ 3؍ روپے کرایہ دیتے ہیں۔ پولو گرائونڈ کتنی زمین پر محیط ہے؛ یہ نہیں بتایا گیا۔ 1967ء میں سی ڈی اے نے کلب انتظامیہ کو 244؍ ایکڑ زمین لیز پر دی تھی اور اس وقت رعایتی نرخوں یعنی ایک روپیہ فی ایکڑ پر یہ لیز 10؍ سال کے لیے دی گئی تھی۔ معاہدے کے تحت دس سال بعد کرایے پر نظرثانی ہونا تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بجائے مزید 108؍ ایکڑ دے کر کلب کو وسیع عریض بنا کر اسے 352؍ ایکڑ تک پھیلا دیا گیا۔ پی آئی سی نے آئین کے آرٹیکل 19؍ اے کے تحت اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چونکہ زمین سرکار نے لیز پر دی ہے لہٰذا اسلام آباد کلب ’’سرکاری ادارہ‘‘ ہے۔
کمیشن نے یہ دلیل بھی مسترد کر دی کہ درخواست گزار کو جاننے کا اختیار نہیں کیونکہ وہ رکن نہیں۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ اس دلیل میں اس لیے وزن نہیں کیونکہ معلومات کے حصول کے قانون کے سیکشن 2 (دوم) کے تحت ’’درخواست‘‘ گزار کی تشریح پر یہ پورا نہیں اترتی۔ لہٰذا، کلب کو ہدایت کی گئی کہ وہ سات دن میں معلومات فراہم کرے۔ یہ فیصلہ 18؍ اگست کو سنایا گیا تھا تاہم اب تک انتظامیہ نے کوئی معلومات فراہم نہیں کی حالانکہ دو شو کاز نوٹس بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔
پی آئی سی کے پاس عدالتی اختیارات ہیں کہ وہ اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے اقدام کر سکتا ہے اور ممکنہ طور پر یہی اگلا اقدام ہو سکتا ہے۔ آڈٹ رپورٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ کلب تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہے جو غلط ہے کیونکہ کمرشل مقاصد کے لیے دی جانے والی زمین لیز پر کھلی نیلامی میں دی جاتی ہے اور اس کے مطابق ہی فیس لی جاتی ہے۔ ممبرشپ دینے کے معاملے میں بھی کوئی شفافیت نہیں ہے۔ وفاقی حکومت کے افسران اور سفارت کاروں کے لیے قائم کیا جانے والا کلب اب سات کیٹگریز میں رکنیت دیتا ہے جو آڈٹ رپورٹ کے مطابق بلاجواز ہے۔
دیگر معاملات میں بھی شفافیت نہیں ہے، آڈیٹرز کو معلومات فراہم نہیں کی گئیں کہ کلب کے متنظمین، مینجنگ کمیٹی اور ایگزیکٹو افسران وغیرہ کو مقرر کیا جاتا ہے، ارزاں نرخوں پر (سبسڈی) خوراک اور مشروبات ارکان کو کیسے دیے جاتے ہیں؛ اسلام آباد گولف کلب انتظامیہ پرندوں اور انڈوں کی فروخت کیسے کرتی ہے، گولف کلب اسلام آباد کلب کا حصہ ہے۔
یہ خبر 28 اکتوبر 2020 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی۔