Time 29 اکتوبر ، 2020
بلاگ

ہمارے زخموں پر نمک مت چھڑکو!

فائل فوٹو

جو گستاخی فرانس کے صدر میکرون کی مرضی و منشاء بلکہ مکمل سپورٹ سے کی گئی وہ ریاستی دہشتگردی سے کم نہیں جس پر پوری اسلامی دنیا کو اپنا سخت ردِعمل دینا چاہئے۔ 

ایک طرف اگر فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف مسلمان ممالک کے حکمرانوں کو اِس مسئلےسے نبٹنے کے لئے یک آواز ہو کر ایسی تدبیر اختیار کرنا پڑے گی کہ اِس گھناؤنے کھیل، جس کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کی دل آزاری اور اُنہیں دکھ پہنچانا ہوتا ہے، کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روکا جا سکے۔ 

ابھی تک اسلامی ممالک میں سے ترکی کے صدر اردوان نے فرانس کو کھری کھری سنائیں اور اپنے عوام سے فرانس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کی بھی اپیل کی۔

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بہت اچھا کیا کہ اسلامی ممالک کے تمام سربراہان کو خطوط لکھے جس میں تمام مسلمان ممالک کو اِس گستاخی کے خلاف متحد ہو کر آواز بلند کرنے اور ایک متفقہ حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیا۔ 

صرف خطوط لکھ کر خاموش نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ وزیراعظم اِس بات کو یقینی بنائیں کہ اگر اُن کی حکومت اِس عظیم مقصد کا پیچھا کرے اور اگر تمام مسلمان ممالک ایک بات پر متفق نہیں بھی ہوتے تو جتنے زیادہ ممکن ہوں، وہ فرانس اور مغربی ممالک کی اِس گستاخانہ حرکت پر،جو ہر کچھ عرصہ کے بعد دہرائی جاتی ہے، کے خلاف اپنا پلان آف ایکشن بنا کر مغرب کو باور کروائیں کہ ایسی گستاخی کو کسی بھی بہانے برداشت کرنا مسلمانوں کے لئے ممکن نہیں۔ 

مسلمان ممالک میں اِس گستاخی کے خلاف عوامی سطح پر مظاہرے اور احتجاج بھی شروع ہو چکے ہیں اور بنگلہ دیش میں جو مظاہرے دیکھے گئے، اُس میں لاکھوں لوگ شریک تھے۔ آئندہ چند دنوں خصوصاً آئندہ جمعہ کے روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان فرانس کے اِس گستاخانہ عمل کے خلاف سڑکوں پر ہوں گے جس سے ممکنہ طور پر مسلمان ممالک کے رہنماؤں پر ایسے شرمناک عمل کو روکنے کیلئے دبائو بڑھے گا۔

 ایسے مظاہرے ماضی میں بھی ہوئے اور بدقسمتی سے کئی مرتبہ اِن مظاہروں میں مسلمانوں نے اپنے ہی ملکوں اور اپنے ہی بھائیوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا، جس سے ہر حال میں پرہیز کیا جانا چاہئے کیوں کہ ایسا عمل اسلام دشمنوں اور گستاخی کرنے والوں کو نقصان پہنچانے کے بجائے اُنہیں خوشی مہیا کرتا ہے۔ 

احتجاج ایسا ہو جو فرانس، فرانس کے صدر میکرون اور گستاخی کے عمل کے حمایتیوں کو تکلیف پہنچائے۔ اِس سلسلے میں امریکا، برطانیہ، یورپ اور دوسرے مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ ایسے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بھی احتجاج کریں، وہاں عدالتوں اور عوام کے نمائندہ فورمز پر گستاخی کے خلاف آواز اُٹھائیں، اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے وہاں کی سیاسی جماعتوں اور حکومتوں تک یہ بات پہنچائیں کہ آزادیٔ اظہارِرائے کے نام پر وہاں جو گستاخی کی جاتی ہے، وہ دراصل شدت پسندی کی بدترین شکل ہے۔ 

مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو، یہ بات بھی اُن ممالک کو، جہاں وہ سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں، باور کروانی چاہئے کہ فرانسیسی صدر میکرون جو ترکی کے صدر اردوان کے خلاف اس لئے ہو گیا کہ صدر اردوان نے اُس کو دماغی علاج کروانے کا کہہ کر (میکرون کے مطابق) اُس کی تضحیک کی تو پھر مسلمان اپنی مقدس ترین ہستی، جن کی ناموس کے لئے وہ مر مٹنے کے لئے تیار رہتے ہیں، کے متعلق کسی گستاخانہ عمل کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں؟

مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کا اِس حوالے سے کردار بہت اہم ہے بلکہ یہ اُن کا دینی فریضہ بھی ہے، جسے اُنہیں اپنی آخرت سنوارنے کے لئے ہر حال میں ادا کرنا چاہئے۔ یہاں میں اپنے اُن سیکولر اور لبرل پاکستانیوں سے بھی گزارش کروں گا جو ویسے تو سوشل میڈیا بشمول ٹویٹر پر ہر مسئلہ پر بہت ایکٹو رہتے ہیں لیکن اِس معاملے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں، کہ اپنی آواز فرانس کی اِس گستاخانہ حرکت کے خلاف بلند کریں اور آزادیٔ اظہارِ رائے کے اُس فلسفہ کو رد کرنے میں تمام مسلمانوں کا ساتھ دیں جو گستاخانہ عمل کے لئے جواز بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ 

اِس ماحول میں جب پوری دنیا کے مسلمان سراپا احتجاج ہیں، یہ ظلم ہوگا، بہت زیادتی ہوگی بلکہ اشتعال انگیزی ہوگی کہ کوئی دیسی لبرل آزادیٔ اظہارِرائے کی بات کرے۔ ایسے افراد اگر مسلمانوں کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے تو اُن پر نمک چھڑکنے کا کام بھی مت کریں۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔