03 نومبر ، 2020
امریکا میں آج صدارتی انتخاب کیلئے پولنگ ہونے جارہی ہے اور امریکا شاید دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کی نگاہیں امریکی صدارتی انتخاب پر جمی ہوتی ہیں۔
تاہم زیر نظر مضمون کا محور امریکی صدارتی انتخاب کے طریقہ کار، صدارتی امیدواروں کی رسہ کشی یا اس جیسے کسی اور پہلو پر نہیں بلکہ صدارتی انتخاب سے جڑی ایک انتہائی دلچپسپ بات سے ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکا میں انتخابات اور خاص طور پر صدارتی انتخاب نومبر کے پہلے ’منگل‘ ہی کو منعقد ہوتے ہیں؟ اگر جانتے ہیں تو کیا آپ نے کبھی سوچا کہ منگل کا دن ہی کیوں منتخب کیا گیا؟ اور کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ اگر منگل کا دن یکم نومبر کو آجائے تو الیکشن کی تاریخ آگے کیوں بڑھادی جاتی ہے؟
آئیے ان سوالوں کے جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
کئی دہائیوں سے امریکا میں انتخابات منگل کو ہوتے آرہے ہیں، پہلی بار منگل کے روز الیکشن کے انعقاد کا باضابطہ فیصلہ 1845 میں کیا گیا تھا۔
1845 میں ایک قانون پاس کیا گیا جس کا مقصد تھا کہ ملک میں الیکشن کے انعقاد کا ایک دن مقرر کیا جائے۔ ابتدائی طور پر یہ فیصلہ محض صدارتی انتخاب تک محدود تھا تاہم بعد میں اس کا دائرہ ارکانِ کانگریس کے انتخابات تک بھی بڑھا دیا گیا۔
اب سوال یہ ہے کہ قانون میں نومبر کا مہینہ ہی کیوں منتخب کیا گیا۔ دراصل جس وقت یہ قانون بنایا گیا یعنی 1845 میں امریکا بنیادی طورپر زرعی ملک تھا اور معاشرے کا بڑا طبقہ زراعت کے پیشے سے وابستہ تھا۔
امریکی ووٹرز کی ایک بہت بڑی تعداد کسانوں پر مشتمل تھی جن کا پورا سال بیجوں کی بوائی، فصلوں کی نگہداشت اور پھر ان کی کٹائی میں گزر جاتا تھا اور پھر کچھ عرصہ آرام کے بعد کسان پھر سے نئی فصل کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے تھے۔
اس دوران نومبر کے ابتدائی ایام میں کسان فارغ رہتے تھے اور نومبر میں موسم بھی بہت زیادہ سرد نہیں ہوتا لہٰذا الیکشن کے لیے نومبر کا مہینہ سازگار ٹھہرا۔
اب معاملہ تھا دن کے تعین کا کہ الیکشن کس دن ہوں۔ غور و فکر کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ہفتے کے کچھ دن دیگر دنوں کے مقابلے میں الیکشن کے لیے زیادہ سازگار ہیں لیکن اتوار کے دن کو یکسر مسترد کردیا گیا کیوں کہ اس وقت امریکیوں کی اکثریت مذہبی رغبت رکھتی تھی اور عیسائی مذہب میں اتوار کے دن کو عبادت کیلئے دیگر ایام کی نسبت فوقیت حاصل ہے جبکہ اتوار کو لوگ ہفتہ بھر کام کے بعد آرام کرنے کو بھی ترجیح دیتے ہیں۔
اس کے بعد بدھ کو بھی مسترد کردیا گیا کیوں کہ اس وقت یہ رواج تھا کہ کسان اپنی فصل بدھ کے روز منڈی لے جاکر فروخت کیا کرتے تھے اور بدھ کو زرعی اجناس کی خرید و فروخت کا دن سمجھا جاتا تھا۔
قانون بنانے والوں کے نزدیک اب پیر، منگل، جمعرات جمعہ اور ہفتہ بچے لیکن 1845 میں ذرائع آمد و رفت انتہائی سست ہونے کی وجہ سے سفر میں کافی وقت لگتا تھا اور آبادی بھی کافی فاصلے پر ہوا کرتی تھی لہٰذا لوگوں کو پولنگ اسٹیشن پہنچے کیلئے بھی کافی وقت درکار ہوتا تھا۔
اتوار کو عبادت کا دن ہونے اور بدھ کو منڈی کی وجہ سے امریکیوں کی اکثریت سفر نہیں کرسکتی تھی لہٰذا پیر اور جمعرات کو ان کے لیے پولنگ اسٹیشن تک پہنچنا ممکن نہیں تھا اس لیے ان دو دنوں کو بھی مائنس کردیا گیا۔
اس صورتحال میں قرعہ فال منگل کے نام نکلا اور قانون منظور ہوگیا کہ امریکا میں انتخابات منگل کو ہوا کریں گے۔
معاملہ یہیں نہیں تھما بلکہ قانون سازوں کو ایک اور مسئلہ درپیش تھا اور وہ یہ کہ اگر منگل کا دن نومبر کی یکم تاریخ کو آجائے تو پھر کیا کیا جائے؟
دراصل یکم نومبر کو الیکشن کا انعقاد اس لیے غیر موافق قرار دیا گیا کیوں کہ عیسائی مذہب کو ماننے والے بعض لوگ اس دن کو ’آل سینٹس ڈے‘ کے طور پر مناتے ہیں اور اس سے ایک روز قبل ’ہیلووین‘ منایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ مہینے کے پہلے دن بیشتر بیوپاری اور سوداگران پچھلے مہینے کے کھاتوں کے حساب کتاب میں مصروف ہوتے ہیں اور ان کیلئے اس روز سفر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
لہٰذا قانون سازوں نے یہ طے کیا کہ الیکشن کا انعقاد نومبر کے پہلے ’پیر‘ کے بعد آنے والے منگل کو ہوں گے۔
امریکی تاریخ میں اب تک ہونے والے انتخابات میں سے 14 فیصد الیکشن کی تاریخ اس لیے آگے بڑھائی گئی کیوں کہ نومبر کا پہلا منگل یکم تاریخ کو پڑا۔
اس کی تازہ ترین مثال 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخاب ہیں جس میں ری پبلکن پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ نے کامیابی حاصل کی تھی۔ 2016 میں یکم نومبر کو منگل کا دن تھا جس کی وجہ سے الیکشن 8 نومبر کو ہوئے تھے۔
صدارتی انتخاب کے لیے کانگریس کی جانب سے ایک تاریخ متعین کیے جانے سے قبل ہوتا یہ تھا کہ ریاستیں اپنی اپنی الیکشن کی تاریخ طے کرتی تھیں اور ہر ریاست کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ وہاں الیکشن سب سے آخر میں ہوں تاکہ انتخابی نتائج کا دارومدار ان کی ریاست کی ووٹنگ پر ہو اور وہ ریاست اپنی مرضی سے نتیجے پر اثر انداز ہوسکے۔
صدارتی انتخاب کی تاریخ طے نہ ہونے سے قبل ایسا بھی ہوتا تھا کہ ان ریاستوں کے شہری جہاں الیکشن بعد میں منعقد ہوتے تھے، دیگر ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کے رجحان سے متاثر ہوکر ووٹ کاسٹ کیا کرتے تھے جس سے انتخابات کی شفافیت متاثر ہوتی تھے۔
لہٰذا الیکشن کے لیے ایک دن مقرر کرکے ان تمام ہتھکنڈوں کا راستہ روک دیا گیا۔
منگل کا دن یوں تو شہریوں کی آسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے طے کیا گیا تھا لیکن اب یہ آسانی سے زیادہ زحمت بنتا جارہا ہے۔ ورکنگ ڈے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے وقت نکالنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
1845کے مقابلے میں آج امریکا میں 2 فیصد سے بھی کم لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور وہ سارا سال ہی منگل کو کام کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امریکی انتخابات میں ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بھی کم ہوتا جارہا ہے۔
2010 کے اعداد و شمار کے مطابق اُس وقت ووٹر ٹرن آؤٹ کے اعتبار سے امریکا دنیا میں 140 ویں نمبر پر تھا جس کے بعد بعض ماہرین نے تجویز دی کہ الیکشن کا دن منگل سے تبدیل کرکے ہفتے پر لے جایا جائے جبکہ بعض کا کہنا تھا کہ الیکشن کا دن منگل ہی رکھا جائے لیکن اس روز عام تعطیل دے دی جائے تاہم ان کی تجاویز پر اب تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔
البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ووٹرز کی آسانی کے لیے قبل از انتخاب ووٹنگ اور ڈاک کے ذریعے ووٹ کاسٹ کرنے کے آپشنز فراہم کیے گئے ہیں جس کی وجہ سے اب پولنگ کے دن کو وہ اہمیت بھی حاصل نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔