03 نومبر ، 2020
امریکا میں آج 59 ویں صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ ہوگی، دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت ہونے کے باعث دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کی نظریں اس الیکشن پر ہیں کیونکہ اس بات سے انکارکرنا مکمن نہیں کہ وائٹ ہاؤس میں جو شخص بھی تخت نشین ہوگا اس کی پالیسیوں کا اثر دنیا بھر میں ضرور پڑےگا۔
انتخاب 2020 میں موجودہ صدر اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار جوبائیڈن مدمقابل ہیں اور اصل مقابلہ انہی دونوں رہنماؤں کے درمیان ہے۔
امریکی فیڈرل الیکشن کمیشن کے مطابق امریکا میں ان دونوں کے علاوہ بھی تقریباً ایک ہزار 214 افراد ایسے ہیں جو الیکشن 2020 میں امریکی صدر کے عہدے کے امیدوار ہیں، ان افراد میں مختلف پارٹیوں کے علاوہ آزاد امیدوار بھی حصہ لے رہے ہیں۔
امریکی صدارتی نظام سمجھنے میں جتنا پیچیدہ ہے، اس کا انتخابی عمل اتنا ہی مہنگا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2016 کے صدارتی انتخاب میں الیکشن مہم کے دوران مجموعی طورپر 4 ارب ڈالر خرچ کیے گئے تھے، یہ رقم امریکی شہریوں کے عطیات سے حاصل کی جاتی ہے، انتخابی مہم پر خرچ کی کوئی حد مقرر نہ ہونے کے باعث یہ عمل اور مہنگا ہوتا جارہا ہے اور ناقدین کی جانب سے اس معاملے پر سخت تنقید کا بھی سامنا ہے۔
الیکشن میں بڑے پیمانے پر وسائل کا استعمال، ذرائع ابلاغ میں تشہیر اور لابنگ پر بے دریغ پیسہ خرچ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ڈیموکریٹک اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ہی ہر جگہ نظر آتے ہیں اور امریکا کا صدارتی نظام عملی طور پر 2 جماعتی نظام بن کر رہ گیا ہے۔
اس مرتبہ بھی ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ بھی متعدد جماعتیں میدان سیاست میں سرگرم اور صدارتی دوڑ میں شامل ہیں تاہم اکثر افراد ان جماعتوں کے نام سے ہی واقف نہیں ہیں، ایسی جماعتوں کو 'تھرڈ پارٹی' کہاجاتا ہے اس کے علاوہ صدارتی دوڑ میں آزاد امیدوار بھی شامل ہوتے ہیں۔
امریکی تاریخ میں صرف پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن ہی ہیں جو کہ آزاد حیثت سے منتخب ہوئے تھے اور ان کے بعد آنے والے صدور کا تعلق یا تو ری پبلکن پارٹی سے رہا ہے یا پھر ڈیموکریٹک پارٹی سے۔
ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے بعد امریکا میں جس پارٹی کو قابل ذکر حیثیت حاصل ہے اس میں 'لبرٹیرین پارٹی' سرفہرست ہے۔
لبرٹیرین پارٹی کی جانب سے اس مرتبہ صدارت کے لیے جو جورگینسن کو نامزدکیاگیا ہے جوکہ انسانی حقوق کی کارکن اور پیشے کے لحاظ سے ماہر نفسیات ہیں۔
جو جورگینسن کی جانب سے انتخاب میں کامیابی پر امریکی عوام کے لیے فلاحی منصوبوں کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ہوائی ہاکنز 'گرین پارٹی' کی جانب سے صدارت کے امیدوار ہیں جو کہ عہدہ صدارت کی دوڑ میں چوتھے قابل ذکر امیدوار ہیں۔
ہوائی ہاکنز ایک مزدور رہنما ہیں اور مزدور سیاست میں کافی سرگرم رہے ہیں،اس کے علاوہ انہیں ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کے حوالے سے آواز اٹھانے کی وجہ سے بھی جاناجاتا ہے۔
ہاکنزکے انتخابی منشور میں مزدوروں کے حقوق اور ماحول دوست قوانین کو اہمیت دی گئی ہے۔
گلوریا لاریوا 'پارٹی فارسوشلزم اینڈ لبریشن'کی جانب سے صدارتی امیداور ہیں۔
یہ پارٹی کمیونسٹ نظریات کی حامل ہے اور امریکی عوام کے لیے سوشلسٹ اصلاحات، مزدوروں کے حقوق اور سماجی مساوات کے نعروں کے ساتھ انتخاب میں شریک ہے۔
کانیے ویسٹ کو الیکشن کے دن چاہے کتنے ہی ووٹ حاصل کیوں نہ ہوں تاہم انتخابی مہم کے دوران امریکی ذرائع ابلاغ میں انہوں نے کافی جگہ بنائی ہے۔
اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کانیے ویسٹ امریکا کے ایک معروف اور جانے پہچانے موسیقار،گلوکار اور ریپر ہیں اور ساتھ ہی وہ نامور امریکی سوشل میڈیا اسٹار اور ماڈل کِم کارڈیشن کے شوہر بھی ہیں۔
کانیے ویسٹ ویسے تو آزاد امیدوار کی حیثیت سے صدارتی دوڑ میں شامل ہیں تاہم انہوں نے اپنی ایک جماعت بھی بنائی ہے جسے انہوں نے 'برتھ ڈے پارٹی'کا نام دیا ہے۔
صدارتی دوڑ میں شامل ایک اور نام بروک پِیرس کا ہے جو کہ کرپٹو کرنسی کے کاروبار سے منسلک ارب پتی ہیں اور بچپن میں اداکاری بھی کرچکے ہیں۔
ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے بروک پِیرس نے امریکی ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ حاصل کی ہے۔
صدارتی دوڑ میں شامل جیڈ سِمنز ایک موسیقار ہیں جو کہ سابقہ ملکہ حسن بھی رہ چکی ہیں ۔
جیڈ سمنز آزاد حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں وہ امریکا میں سماجی مساوات کے ساتھ ساتھ سیاہ فام افراد کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کررہی ہیں۔
مارک چارلس بھی آزاد حیثیت سے صدارتی دوڑ میں شامل ہیں، امریکا کے مقامی باشندوں کی نسل سے تعلق رکھنے والے مارک چارلس پیشے کے اعتبار سے کمپیوٹر پروگرامر ہیں۔
انہوں نے انتخابی مہم کے دوران سماجی انصاف، نسلی تعصب اور امتیاز کے خلاف بات کی ہے اور ایسے ہی مسائل کو حل کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
ان امیدواروں کے علاوہ بھی سیکڑوں امریکیوں نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے الیکشن کمیشن میں خود کو رجسٹرڈ کروایا ہے تاہم ان میں سے ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہے جو خود انتخاب لڑنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
ماہرین کے مطابق فی الحال ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتاکہ امریکا میں تھرڈ پارٹی امیدواروں میں سےکوئی صدر بن سکے تاہم یہ ضرور ہےکہ یہ امیدوار ری پبلکن اور ڈیموکریٹس امیدواروں کے ووٹ ضرور متاثرکرتے ہیں۔
گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ امریکا میں تھرڈ پارٹی امیدوار زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کرسکے جس کی بڑی وجہ کورونا وائرس اور معاشی مشکلا ت ہیں جس کی وجہ سے یہ امیدوار بڑے پیمانے پر انتخابی مہم چلانے میں ناکام رہے ہیں۔