05 نومبر ، 2020
سندھ ہائی کورٹ نے نو مسلم لڑکی آرزو راجہ کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دے دیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں آرزو راجہ کی جانب سے تحفظ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔
پولیس نے سخت سیکیورٹی میں آرزو کو سندھ ہائی کورٹ میں پیش کیا جب کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی جانب سے بیرسٹرصلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے۔
آرزو نے سندھ ہائی کورٹ میں بیان دیا کہ میں نے اسلام قبول کیا ہے، میرا نام آرزو فاطمہ ہے، میری عمر 18 سال ہے۔
دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے استدعا کی کہ لڑکی کا بیان ریکارڈ نہ کیا جائے، جس پر جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ لڑکی نے جو کچھ کہا ہے اوپن کورٹ میں کہا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم نے لڑکی سے تین سوال کیے، جس کا اس نے جواب دیا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ہمارا کیس یہاں صرف ایف آئی آر ختم کرنے کا تھا، جس پر عدالت نے کہا کہ اب معاملہ کچھ اور ہے ہمیں لڑکی کی عمر دیکھنی ہے۔
آرزو کے وکیل نے کہا کہ اگر لڑکی کی عمر کم ہوئی تو اس پر الگ قانون لاگو ہو گا، لڑکی کا بیان ریکارڈ کر لیں کہ اس کو اغواء نہیں کیا گیا۔
عدالت نے آرزو فاطمہ سے استفسار کیا کہ آپ کو کسی نے اغواء کیا ہے؟
آرزو نے عدالت میں بیان دیا کہ مجھے کسی نے اغواء نہیں کیا کہ کوئی زبردستی نہیں کی گئی، مجھے اپنے شوہر سے الگ نہ کیا جائے۔
عدالت نے آرزو کی عمر کا تعین جلد سے جلد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پہلے لڑکی کی عمر کا تعین ہونے دیں پھر باقی معاملات دیکھیں گے۔
سندھ ہائی کورٹ نے آرزو کی عمر کے تعین کے لیے سیکرٹری داخلہ کو میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ 9 نومبر کو آرزو کی عمر کے تعین سے متعلق رپورٹ پیش کی جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ عمر کے تعین تک درخواست گزار شیلٹر ہوم میں رہے گی۔
عدالت نے آرزو سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جو دستاویزات پیش کی گئیں ان کے مطابق آپ کی عمر کم ہے۔