Time 14 نومبر ، 2020
بلاگ

فردوس عاشق کی 9 زندگیاں

فوٹو: فائل

مشہور اور پرانا انگریزی محاورہ ہے کہ بلی کی 9 زندگیاں ہوتی ہیں، اِس محاورے کے مطابق بلی اپنی پہلی 3 زندگیوں میں کھیلتی ہے پھر 3 زندگیوں میں آوارہ گردی کرتی ہے اور آخری 3 زندگیوں میں وہ ایک جگہ قیام کرتی ہے۔

بلیوں کو اپنی جگہ بدلتے تو ہم نے خود بھی دیکھا ہے اور یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ بلی اپنے چھوٹے چھوٹے بلونگڑوں کو بھی منہ میں اٹھا کر کئی جگہ گھماتی پھراتی ہے۔

زندگی کو مختلف ادوار اور انداز میں گزارنے کا فن بلی سے بہتر کوئی نہیں جانتا یا پھر ہماری فردوس عاشق اعوان ہیں جو ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے کم از کم 5 سیاسی زندگیاں گزار چکی ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ہر بار پوری آن بان اور شان و شوکت سے نئی زندگی میں اِس زور آور انداز میں ظاہر ہوتی ہیں کہ اپنی زندگی کے پچھلے کیریئرز کی شان کو خود ہی ماند کر دیتی ہیں، یوں لگتا ہے کہ اُن کی موجودہ زندگی کا موڑ ہی سب سے شاندار ہے۔

ابھی کل ہی کی بات ہے کہ طالبہ فردوس عاشق فاطمہ جناح میڈیکل کالج میں کلیلیں بھرتی پھرتی تھیں۔

پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی سرگرم کارکن کے طور پر مخالفوں کے جلسے اُلٹا دیا کرتی تھیں۔ پھر ہم نے دیکھا کہ وہ ڈاکٹر بن کر ایک فلاحی انجمن چلانے لگیں، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ مسلم لیگ (ق )کی خواتین کے لئے مخصوص نشست پر نامزد ہو گئیں، قومی اسمبلی میں گئیں تو اپنے ہی حلقے سے تعلق رکھنے والے چودھری امیر حسین سے میچ ڈال لیا۔

اگلے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی میں لینڈ کیا، چودھری امیر حسین کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کا ٹکٹ لیا اور الیکشن جیت کر ایک بڑا معرکہ سر کر لیا۔ قسمت نے بھی یاوری کی اور وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا قلمدان اُن کے حصے میں آ گیا۔

پیپلز پارٹی کا سورج غروب ہوا تو ڈاکٹر فردوس عاشق نے پی ٹی آئی کے ساتھ زندگی کا نیا سفر شروع کر دیا۔ پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینے میں تو کامیاب ہو گئیں مگر اِس بار مدِمقابل وریو خاندان تھا۔

سو ہار گئیں مگر اُنہوں نے ہار کو دل پر نہیں لیا بلکہ اپنی ہار کو جیت بنانے کے لئے کمر کس لی، انتھک اور محنتی تو وہ ہیں سو بنی گالا کے راستے وفاقی مشیر اطلاعات بن کر چمکنے لگیں۔

حاسدوں کو پسند نہ آئیں، چاند گہنانے لگا اور پھر ایک دن اُن کی چھٹی کروا کے شبلی فراز کو اُن کی گدی پر بٹھا دیا گیا۔

دھچکا تو بہت بڑا تھا، کوئی اور ہوتا تو سیاست چھوڑ دیتا مگر ڈاکٹر فردوس عاشق ہار ماننے والوں میں سے نہیں، سو اپنی سیاست کی پانچویں باری میں وہ پنجاب کی مشیر اطلاعات بن کر پھر سے جلوہ گر ہو گئی ہیں اور یوں پہلے سے جلتے کئی چراغوں کو گل کرنے کا سبب بن گئی ہیں۔

ڈاکٹر فردوس عاشق پنجاب میں اِس ٹاسک کے ساتھ آئی ہیں کہ وزیراعلیٰ بزدار کے کارناموں کو ہائی لائٹ کریں اور پنجاب میں اب تک جو کشتوں کے پشتے لگائے ہیں، اُن کو لوگوں کے سامنے لائیں۔

دوسری طرف ان کو لانے کا مقصد مریم نواز اور مریم اورنگ زیب کے مقابلے میں کھڑا کرنا ہے تاکہ خواتین کا جواب خاتون ہی دے سکے۔

ڈاکٹر صاحبہ خود بھی چاہتی ہوں گی کہ وہ سیالکوٹ میں اپنے ناقابلِ تسخیر مدِمقابل کو ہرانے کے لئے پنجاب حکومت سے ایسے کام کروا لیں جو کل کو الیکشن میں اُن کے کام آئیں۔

ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی 9زندگیاں ایک معمہ ہیں، اُن کے پاس کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ وہ پاتال میں گر کر پھر سے عروج کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں۔ کیا گوٹیاں لڑاتی ہیں کہ بند دروازے کھل جاتے ہیں۔

کیا طلسم یا جادو ہے کہ وہ چلہ کاٹ کر ایسی پھونک مارتی ہیں کہ پھر سے اقتدار کی دیوی اُن پر مہرباں ہو جاتی ہے۔

وفاقی مشیر اطلاعات کے طور پر فارغ ہوئیں تو چپ سادھ لی مگر کہیں نہ کہیں سے خبر ملتی رہی کہ وہ گھر نہیں بیٹھیں، اندر ہی اندر سے زمین دوز راستہ بنا رہی ہیں اور واقعی ایسا ہی ہوا کہ ایک بار پھر وہ تام جھام سے پنجاب کی وزارتِ اطلاعات کو سنبھال چکی ہیں۔ کہنے والے اب بھی کہہ رہے ہیں کہ اِس بار بھی راستہ بنی گالہ سے ہی نکلا ہے۔

ڈاکٹر فردوس عاشق کے دوبارہ سے اِن ہونے سے حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی کم ہو گی نہ زیادہ۔ ڈاکٹر فردوس ٹی وی اسکرینوں پر شاید زیادہ ٹائم لے لیں کیونکہ وہ بنا کے رکھنے کا فن جانتی ہیں لیکن اُنہیں وہی وقت ملے گا جو پہلے فیاض چوہان یا شہباز گل کو مل رہا تھا۔

اپوزیشن اپنا ٹائم تو پورا لے گی، حکومت کا ٹائم تین ترجمانوں میں تقسیم ہو گا۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ آپس کے مقابلے میں آگے کون رہتا ہے؟

اِسے حسنِ اتفاق کہیے یا ستم ظریفی کہ اِدھر ڈاکٹر فردوس عاشق نے اپنی سیاسی زندگی کا پانچواں دور شروع کیا ہے اور اُدھر ایک زمانے میں اُن کی ق لیگی کولیگ ایم این اے کشمالہ طارق نے دوسری شادی کرکے اپنی زندگی کا نیا سفر شروع کیا ہے۔

کشمالہ اور فردوس عاشق میں سب اچھا نہیں رہا، ایک بار تو ٹاک شو میں بات تو تو میں میں سے آگے ذاتیات تک چلی گئی تھی۔

امید ہے وقت گزرنے کے ساتھ رنجشیں جاتی رہی ہوں گی اور ڈاکٹر فردوس عاشق نے پاکستان میں خود کو سب سے اچھا Carryکرنے والی خاتون کشمالہ طارق کو نئی زندگی پر دلی مبارکباد دے دی ہوگی۔

ڈاکٹر فردوس عاشق کی بطور مشیر اطلاعات پنجاب تقرری کے بعد اُن پر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کے بعض افراد کی طرف سے لگائے گئے الزامات تو دم توڑ گئے ہیں مگر فردوس عاشق کو احتساب اکبر اور اعظم نوکر شاہی خان سے اِن الزامات کے بارے میں ضرور پوچھنا چاہئے جو اُن کی وفاق سے فراغت پر لگائے گئے تھے تاکہ آنے والے کل میں پھر سے وہ الزامات دہرائے نہ جا سکیں۔

ڈاکٹر فردوس عاشق وفاق میں اتنی کامیاب نہیں ہوئیں جتنی صوبے میں ہوں گی۔ وفاق میں کئی طاقتیں اور کئی شخصیتیں تھیں، ہر ایک کو خوش رکھنا اور مطمئن کرنا بہت مشکل تھا۔ پنجاب میں بزکش کو ہاتھ میں رکھنا اور وفاق میں بڑے خان کی نظروں میں رہنا اتنا مشکل نہیں ہوگا۔ وفاق میں کبھی کوئی ایجنسی رپورٹ کر دیتی ہے، کبھی مودی ملتانی اور کبھی اسد بن غلام عمر شکایت کر دیتا تھا۔

فواد جہلمی سے فردوس کی بنتی نہیں تھی کیونکہ اُسے ہٹا کر تو آئی تھیں۔ آخر میں احتساب اکبر اور اعظم نوکر شاہی خان سے تو باقاعدہ دوبدو لڑائی ہو گئی تھی۔

مسئلہ یہ ہے کہ فیاض چوہان بھی تقریر و بیان میں اِس فیاضی سے کام لیتے رہے کہ وزیراعلیٰ کو بہت ہی بڑا کامیاب اور لائق ثابت کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر فردوس وزیراعلیٰ بزکش کو کیسے اِس رتبے سے آگے لے کر جائیں گی؟ یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

سیاست اور صحافت دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق کا سارا سیاسی کیریئر ہماری آنکھوں کے سامنے ہی بنتا، سنورتا اور بگڑتا رہا ہے۔

اتنے برسوں کے Interactionکے بعد یہ بھی اندازہ ہے کہ وہ کھلے دل اور کھلے ذہن کی مالکہ ہیں، اِس لئے اُن پر کالم کے کالم باندھے جاتے ہیں اور وہ بھی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ اِنہیں پڑھ کر ہوا میں اڑا دیتی ہیں۔ اُن میں لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے اور چلانے کی خوبی بدرجہ اتم موجود ہے۔

آخر میں ہلکے پھلکے انداز میں یہ کہنا بھی بےجا نہ ہوگا کہ جس مہارت سے ڈاکٹر فردوس عاشق نے اوپر تلے اپنے پانچ نئے سیاسی کیریئر بنائے ہیں اور 5نئے سیاسی جنم لئے ہیں، اُمید ہے کہ اگلی حکومت (جو بھی ہوگی) ڈاکٹر فردوس عاشق اِس کا بھی حصہ ہوں گی اور اُس کے لئے وہ اپنا چھٹا سیاسی جنم لیں گے۔ ہم کم از کم بلی کی طرح اُن کی 9زندگیاں تو دیکھ کر ہی دنیا سے رخصت ہوں گے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔